• news

پاکستان کو موسمیاتی  بحران سے نمٹنے کیلئے فنڈز کی ضرورت ہے : شہزاد علی ملک 

لاہور(کامرس رپورٹر ) پاکستان سمیت موسمیاتی آفات سے متاثرہ ترقی پذیر ممالک صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ جیسی اہم عوامی خدمات پر اخراجات کم کر کے بحالی اور تعمیر نو میں سرمایہ کاری کرنے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے زیادہ تر لوگ غربت کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ بات فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں یونائیٹڈ بزنس گروپ (یو بی جی) کے چیئرمین شہزاد علی ملک نے مس مومنہ نقوی کی قیادت میں خواتین صنعتکاروں کے وفدکرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ ایشیا خصوصاً پاکستان میں موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے فنڈز کی فوری ضرورت ہے۔ ایشیا کی 50 فیصد سے زیادہ آبادی پہلے ہی 5.50 ڈالر یومیہ آمدنی کی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کی طرف سے ان ممالک کے لیے 2013 اور 2020 کے درمیان صرف 113 بلین ڈالر کی پبلک کلائمیٹ فنانس کا اعلان کیا گیا تھا جو اوسطاً صرف 14 بلین ڈالر کے برابر ہے۔ اس سے بدتر یہ ہے کہ اس رقم کا نصف سے زیادہ قرضوں کی شکل میں فراہم کیا جا رہا ہے جن کی واپسی کی جانی ہے۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر پسماندہ اور کم آمدنی والے طبقات ہی موسمیاتی بحران کے بدترین اثرات کا سامنا کرتے ہیں۔ اس سے نمٹنے کے لیے ان کی تیاری بھی نہیں ہوتی اور بدقسمتی سے ان کا اس موسمیاتی تباہی میں کوئی کردار ہی نہیں ہے۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ آب و ہوا کے تغیر کا مقابلہ کرنے اورگرین سوسائٹی کی تعمیر کے لیے بین الاقوامی مالی امداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایشیا کے ترقی پذیر ممالک موجودہ اور مستقبل کے موسمیاتی دبا? سے مطابقت نہیں رکھ سکتے۔ شہزاد علی ملک نے کہا کہ مناسب مالی امداد نہ ملنے کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک موسمیاتی اثرات کے خطرات سے نمٹنے کے لیے قرضے لینے پر مجبور ہیں اور نتیجتاً قرضوں کے چنگل میں پھنس رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومتوں اور موسمیاتی مالیات فراہم کرنے والے اداروں کو فوری طور پر اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اس کی سکیل اپ فنانس اور گرانٹ مقامی سطح پر کمزور طبقات تک پہنچ رہی ہے اور ان کی حقیقی ضروریات پورا ہو رہی ہیں۔ انہیں اپنے فنانسنگ کے وعدے پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے مقاصد کو بھی واضح کرنا اور ایڈاپشن فنانس کو بھی دوگنا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کچھ جگہوں پر تاریخ کے گرم ترین موسم بہار کا سامنا کرنا پڑا جبکہ زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 50 سینٹی گریڈ سے اوپر جا رہا ہے جس سے لاکھوں لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ وفد کی سربراہ مس مومنہ  نے کہا کہ اقوام متحدہ نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ بہت سے موسمیاتی اثرات پہلے ہی ناقابل واپسی سطح پر پہنچ چکے ہیں اور لوگ ان اثرات سے نمٹنے کے لیے بھی محدود حد تک ہی کچھ کرنے کے قابل ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی ایک ناقابل تردید حقیقت بن چکی ہے اور نہ صرف قطبین میں برف کے پہاڑ تیز رفتاری سے پگھل رہے ہیں بلکہ اب ایشیا میں ہمارے اپنے خطے میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن