نیب ترامیم سے ٹرائل مشکل ، کرپشن ثابت ہی نہیں ہوسکتی : سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ آف پاکستان کا کہنا ہے کہ شفافیت کے معاملہ پر بین الاقوامی طور پر ایک بنچ مارک ہے عدالت اس کے لئے ہدایات دے سکتی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا نیب ترامیم کے بعد ٹرائل اتنا مشکل بنا دیا گیا ہے کہ کرپشن ثابت ہو ہی نہیں سکتی۔ سپریم کورٹ نے عمران خان کے وکیل کو آئندہ جمعرات تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔ سپریم کورٹ میں عمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں قائم تین رکنی خصوصی بینچ نے کی۔ عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے نیب ترامیم کے بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہونے پر دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ بڑی تعداد میں ریفرنسز واپس ہونے سے اس وقت تمام افراد الزامات سے بری ہو چکے ہیں۔ کرپٹ افراد کے بری ہونے سے عوام کے بنیادی حقوق براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا لگتا ہے آپ ہر ویک اینڈ کے بعد کیس میں ایک نیا نکتہ نکال لیتے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا نیب ترامیم سے براہ راست بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کیسے ہو رہی ہے؟۔ ہمارے سامنے تو پالیسی کا کوئی سوال نہیں ہے جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا قومی دولت اور سرکاری پیسہ عوام کا حق ہے، سٹیل مل کرپشن کیس میں سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا سٹیل کیس میں بھی قانون پر بات ہوئی ہے۔ اگر کوئی قانون ہی نہیں تو پھر کیا ہو گا۔ جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا نیب کا قانون تو موجود ہے لیکن اس کو ترامیم کے ذریعے ختم کردیا گیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا آپ جن فیصلوں کا حوالہ دے رہے ہیں وہ صرف قانون بتا رہے ہیں، قانون تبدیل ہو گیا تو پھر کیا کرنا ہے یہ نہیں بتا رہے۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا سپریم کورٹ نے سرکاری پیسے کو عوامی پیسہ قرار دیا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آپ نے بتا دیا ہے کہ حکومت کا پیسہ درحقیقت عوام کا پیسہ ہے۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا نئی ترامیم آرٹیکل24 سے متصادم ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا بجٹ بھی عوامی پیسہ ہوتا ہے کیا بجٹ پیش ہونے پر ہر دوسرا شخص عدالت آ سکتا ہے کہ یہ غلط بنایا گیا؟۔ ایف بی آر کسی کو ٹیکس چھوٹ دے تو کیا یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں آئے گا؟۔ کیا ایمنسٹی سکیم کے خلاف بھی کوئی شہری آسکتا ہے کہ اس کے ذریعے اربوں روپے کو چھوڑ دیا گیا ہے پھر بھی دیکھنا ہے کہ سائل کی اپروچ پاز یٹو ہے یا نیگٹو۔ آپکا کیس تو نیگٹو ہے، کیا کوئی شہری یہ تو تعلق بھی بنا سکتا ہے کہ حکومت کو یہ ٹیکس آرڈر کرنا تھا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا قانون کا ایک بنچ مارک ہے جس سے نیچے لاقانونیت ہوتی ہے، اس بات پر ہم سب آمادہ ہیں کہ احتساب کا قانون ہونا چاہیے، اقوام متحدہ کا انسداد کرپشن کنونشن بہت واضح ہے، کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کم از کم اس بینچ مارک کو برقرار رکھا جائے، کیا ہم اقوام متحدہ کنونشنز کو اپنے قوانین میں منتقل کر سکتے ہیں؟۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اقوام متحدہ کا معذور افراد پر کنونشن آئین پاکستان کا حصہ نہیں ہے، ملک میں بہت سے قوانین ہیں جو عالمی کنونشن کے مطابق نہیں، کیا عدالت پارلیمنٹ کو عالمی کنونشنز پر قانون سازی کا حکم دینا شروع کر دے؟۔ اس طرح تو عالمی کنونشن ہی آئین پاکستان کہلانے لگیں، اور ایک گلوبل پارلیمنٹ پر چلے جائیں گے، ہماری پارلیمنٹ کی کیا حثیت رہ جائے گی، ہر پارلیمان نے اپنے قوانین کو اپنی ضروریات اور حالات کو دیکھ کر بنانا ہوتا ہے۔ عدالت ایگزیکٹو کے بنائے قوانین میں تب مداخلت کر سکتی ہے جب وہ آئین سے متصادم ہو۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا عوامی پیسے پر کرپشن ہونے سے عوام کے ہی حقوق متاثر ہوں گے، قوانین کو بین الاقوامی معیار کے مطابق ہی ہونا ہوتا ہے، دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جو کرپشن کا حامی ہو، مجھے پرانے نیب قانون میں ترامیم کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ملی، ایک مرتبہ قانون کو نرم کر دینے کیلئے اسکی ٹھوس وجوہات ہونی چاہئے۔ ایک وجہ تو یہ بھی ہے کہ افسران کو فیصلوں میں ہچکچاہٹ تھی۔ بہر حال معیار کا تعین تو عدالت نے ہی کرنا ہے۔ بین الاقوامی معیار ہے کہ جس ملک میں کرپشن ہو اس کا بیڑا غرق ہی ہوا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید کہا کہ قانون کا معیار مقرر کرنا عدالت کا کام ہے، حضرت عمرؓ کے زمانے میں ایک اضافی بھینس رکھنے پر بھی احتساب ہوتا تھا، کرپشن کو اتنا دردناک جرم بنانا چاہئے کہ کوئی اسے کرنے کی ہمت نا کرے۔ ہو سکتا ہے یہی ثابت ہو کہ نیب ترامیم بدنیتی اور مخصوص افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے کی گئی ہیں۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ عدالت قانونی معیار مقرر کرتی ہے، قانونی معیار عدالت نہیں آئین طے کرتا ہے، اگر کرپشن پر قوانین موجود ہی نا ہوں تو عدالت کہہ سکتی ہے کہ بنائیں، یہاں تو قانون ہے جو کہ اگر چہ آپکے معیار کے مطابق نہیں، آخر میں قانون پارلیمنٹ نے ہی بنانا ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ نیب ترامیم کالعدم ہونے سے پرانا قانون ازخود نافذ ہو جائے گا؟۔ آسان راستہ تو یہ ہے کہ سارے کنونشنز پارلیمنٹ کے سامنے رکھ دیئے جائیں۔ وکیل خواجہ حار ث نے کہا موجودہ نیب ترامیم سے کرپٹ ملزمان بری ہو کر مزے سے گھروں میں بیٹھے ہیں، اب نیب قانون نہیں ایک دھوکہ ہے۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا یہاں تو لوگ آئین کو سبوتاژ کر کے بھی گھروں میں بیٹھے ہیں، جس پر وکیل نے کہا آئین توڑنے والوں کو بھی سپورٹ ملی ہے۔ عدالت اگر درخواست خارج کرتی ہے تو مطلب نکلے گا کہ درخواست خارج اور کرپشن کی اجازت۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کیا نیب ترامیم سے کوئی ثابت شدہ کرپٹ مجرم بری ہوا ہے؟۔ 23 کڑور لوگوں کی نمائندہ پارلیمنٹ موجود ہے۔ ابھی تو کرپشن ثابت ہونا تھی مقدمات چل رہے تھے، ثابت ہوتے یا نہیں، جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا نظر آتی ہے کہ نمائندہ پارلیمنٹ موجود ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا نیب ترامیم سے اب پیسے معاف کر کے کرپشن چارجز ختم کیے جا رہے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا جب ٹرائل کے بعد ثابت ہوا ہی نہیں کہ ایک شخص کرپٹ ہے یا نہیں تو بنیادی حقوق کیسے متاثر ہو گئے؟۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا نیب ترامیم کے بعد ٹرائل اتنا مشکل بنا دیا گیا ہے کہ کرپشن ثابت ہو ہی نہیں سکتی۔ نرم قانون تو دراصل کرپشن کو راستہ دکھانا ہے۔ جس کے بعد عدالت نے عمران خان کے وکیل کو 17 نومبر تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کر تے ہوئے کیس کی سماعت آج منگل 15 نومبر تک ملتوی کر دی گئی۔