معدنیات ایکٹ میں ترمیم بنیادی حقوق متاثر ہوئے تو مداخلت کرینگے سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر ) ریکوڈک کیس میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اگر معدنیات ایکٹ میں ترمیم سے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہوئے تو عدالت مداخلت کرے گی۔ ریکوڈک صدارتی ریفرنس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے کی۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا معدنیات ایکٹ 1948 کو 1973 کے آئین میں نا وفاقی قانون کی لسٹ میں شامل کیا گیا نا صوبائی، تاہم بعد میں معدنیات ایکٹ کی کچھ شقیں وفاق اور کچھ صوبوں کے اختیار میں چلی گئیں۔ چیف جسٹس نے کہا کیا بیک وقت ایک قانون وفاق اور صوبے دونوں کے اختیار میں ہو گا؟۔ جسٹس یحی خان آفریدی نے کہا کیا حکومت معدنیات رولز میں ترامیم نہیں کر سکتی تھی؟ معدنیات ایکٹ 1948 میں ترامیم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے؟۔ جسٹس منیب اختر نے کہا قانون جادو کی طرح لاگو نہیں ہو جاتے، اسی قانون کا غلبہ ہو گا جو وفاق اور صوبائی سطح پر مماثلت رکھتے ہوں گے۔ جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے کہا اگر معدنیات ایکٹ میں ترمیم سے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہوئے تو عدالت مداخلت کرے گی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل کے اختتام پر موقف اختیار کیا کہ عدالتی معاونین اور دیگر فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اگر ضرورت ہوئی تو مزید دلائل دوں گا۔ جس کے بعد بلوچستان حکومت کے وکیل کے دلائل میں کہا ریفرنس کے قابل سماعت ہونے پر فاضل بنچ نے سوال اٹھایا، ریکوڈک معاہدہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے جس پر صدر ریفرنس بھیجنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ ریفرنس میں پوچھے گئے سوالات مبہم ہیں، ضروری نہیں کہ سوالات بالکل ٹھیک نکتے پر بنائے گئے ہوں، بھارتی سپریم کورٹ قرار دے چکی کہ دلائل میں اٹھائے گئے نکتوں پر سپریم کورٹ رائے دے سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کیا ریکوڈک ریفرنس میں سپریم کورٹ کو صرف انہی قانونی گزارشات پر رائے دینا ہو گی؟۔ جس پر وکیل نے کہا بہتر یہی ہے کہ عدالت ایسی رائے سے گریز کرے جو تمام سرمایہ کاروں کی سہولت کاری کی وجہ ہو، مزید سماعت 16 نومبر تک ملتوی کردی گئی۔
ریکوڈک کیس