• news

امریکہ کے   وسط مدتی انتخابات 


امریکہ میں صدارتی انتخابات ہر لیپ کے سال نومبر کے پہلے منگل کو ہوتے ہیں،مگر وہ منگل پہلے سوموار کے بعد آنا چاہیے۔ گویا اگر منگل پہلی نومبر کو آجائے تو پھر انتخابات پہلی تاریخ کو نہیں ہوں گے، پھر یہ آٹھ نومبر کو ہونگے، کیونکہ سات نومبر کو پہلا سوموار ہوگا۔ امریکی آئین بنانے والوں نے انتخابات کی اتنی حتمی تاریخ طے کردی ہے کہ جس پر کامیابی سے عمل کرتے ہوئے سوا دو سو سال سے بھی زیادہ عرصہ گزر گیا ہے۔ ان عام نتخابات کی سب سے اہم بات دو اہم عہدوں یعنی صدر اور نائب صدر کیلئے ووٹ ہونا ہے۔ صدر اور نائب صدر چار سال کی مدت کیلئے منتخب کیے جاتے ہیں۔ سینٹ کے ممبران چھ سال کی مدت کیلئے منتخب کیے جاتے ہیں، کل سینیٹرز کی تعداد سو ہے، یعنی ہر ریاست دو سینٹرز منتخب کرکے بھیجتی ہے، اور امریکہ میں کل پچاس ریاستیں ہیں۔ ہر دو سال کے بعد ایک تہائی سینیٹر کی چھ سالہ مدت پوری ہوجاتی ہے، یعنی تیس سے اوپر سینیٹرز کا انتخاب ہر دو سال کے بعد ضرور ہونا ہوتا ہے، جس طرح اس مرتبہ 35 سینیٹرزکے لیے انتخابات ہوئے ہیں۔ امریکی قومی اسمبلی جسے ایوان نمائندگان کہا جاتا ہے کے کل ارکان کی تعداد 435 ہے, جن کی مدت عہدہ دو سال ہے، یعنی ہر دو سال کے بعد پورے ایوان نمائندگان کے ممبرز کا انتخاب ہوتا ہے۔ اس ایوان میں نمائندگی سینٹ کی طرح برابر نہیں ہے، بلکہ ریاستوں کی آبادی کے تناسب سے نشستوں کی تقسیم کی گئی ہے، زیادہ آبادی والی ریا ستوں کی نمائندگی بھی زیادہ ہے۔ کیلیفورنیا آبادی کی لحاظ سے سب سے بڑی ریاست ہے اس لیے اسکے ممبران کی تعداد 53 ہے، جبکہ سات ریاستیں اتنی کم آبادی والی ہیں کہ ان کا صرف ایک نمائندہ منتخب ہوتا ہے، جیسا کہ الاسکا ریاست۔ اسی طرح پچاس ریاستوں کے انتظامی سربراہ گورنر کہلاتے ہیں، ان کا انتخاب چار سال کیلئے کیا جاتا ہے، سوائے دو ریاستوں کے، نیو ہیمپشائر اور ورمونٹ۔ اسی طرح صرف ایک نیبراسکا ریاست کے علاوہ ، سب ریاستوں کی اپنی دوایوانی مجالس قانون ساز ہیں، یعنی سینٹ اور ریاستی اسمبلی۔ ان میں اکثریت کا انتخاب بھی  ہر دو سال کے بعد قرار ہونا پایا ہے، یعنی ریاستوں کے ووٹرز اپنی اپنی ریاستوں کی مْقننہ کے دونوں ایوانوں کے ممبران کا انتخاب بھی کرتے ہیں۔ 
عام انتخابات اور وسط مدتی انتخابات میں صرف ایک فرق ہے۔ صدر اور نائب صدر چار سال کیلئے منتخب ہوتے ہیں، ان دونوں کی چار سالہ مدت پوری ہونے کے درمیان یعنی دو سال کے بعد بھی انتخابات ہوتے ہیں، ایسے انتخابات جو صدر اور نائب صدر کے منتخب ہونے کے دو سال بعد ہوتے ہیں، جن میں صدر اور نائب صدر کے علاوہ باقی تمام وہ ممبران جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے کو منتخب کرنے کیلئے ہونیوالے انتخابات کو وسط مدتی انتخابات کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ 8 نومبر ، بروز منگل کو امریکہ میں وسط مدتی انتخابات ہوئے ہیں۔ امریکہ میں دو جماعتی نظام ہے، ری پبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی ہی میدان میں ہوتی ہیں، یہ بھی ممکن ہوتا ہے کہ اگر صدر ڈیموکریٹک پارٹی سے ہو، مگر کانگریس میں اکثریت ری پبلکن پارٹی کی بھی ہوسکتی ہے، اور اسی طرح اسکے اْلٹ بھی۔ اسے امریکہ میں منقسم حکومت ڈیوائڈڈ گورنمنٹ کہا جاتا ہے۔ جب صدر ایک سیاسی جماعت سے ہو، اور کانگریس میں اکثریت اسکی مخالف سیاسی جماعت کی ہو۔ بعینہ پچاس ریاستوں میں گورنرز اور ریاستی مجالس قانون ساز کے انتخابات میں دونوں سیاسی جماعتیں کہیں جیت جاتی ہیں تو کہیں ہار جاتی ہیں، کبھی برابر اور کبھی کسی ایک جماعت کو دوسری پر معمولی سبقت حاصل ہوجاتی ہے۔ 
دلچسپ بات یہ ہے کہ جس طرح کہا جاتا ہے کہ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور، اسی طرح امریکی انتخابات بھی دکھانے کے اور ہوتے ہیں اور حقیقت میں کْچھ اور ہوتے ہیں۔ امریکی صدر پر تو آئینی بندش ہے کہ دو مرتبہ سے زیادہ منتخب نہیں ہوسکتا ، مگر یہ پابندی کسی اور منتخب رکن کیلئے نہیں ہے، اس لیے کانگریس کے اراکین بار بار الیکشن میں منتخب ہوجاتے ہیں، کانگریس میں دوبارہ منتخب ہونے کی شرح پچانوے فی صد سے بھی زیادہ ہے۔ یعنی پہلے ایک بار جیتے ہوئے رکن کو ہرانا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ نوکری پیشہ افراد کی طرح سیاست بھی ایک کیریئر کی طرح ہے ، کانگریس کے ارکان سالہا سال کانگریس کے رکن چلے آتے ہیں، ریاست ویسٹ ورجینیا کے مرحوم سینیٹر ایلن برڈ مسلسل پچاس سال سینٹ کے رکن رہے اور کبھی الیکشن ہارے نہیں۔ یہ تو صرف ایک مثال ہے۔ باقی بھی اسی طرح ہیں کہ جب تک کانگریس کے اراکین ازخود سیاست سے ریٹائرمنٹ نہ لے لیں، نئے ارکان کیلئے موقع میسر نہیں آتا۔ جیسا کہ اس بار چھ سینٹرز نے ریٹائرمنٹ لے لی اور الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔ ایوان نمائندگان کی نسبت سینٹ میں بار بار جیتنے کی شرح کہیں زیادہ ہے۔ البتہ بعض انتخابات میں نئے اراکین، یعنی پہلی بار جیت کر آنیوالے اراکین، جنہیں چیلنجرز کہا جاتا ہے، کی تعداد اگر درجن بھر ہوجائے تو کہا جاتا ہے کہ یہ بڑے حیران کن انتخابات ہوتے ہیں، اور ان انتخابات کو تاریخ میں یاد رکھا جاتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ امریکہ میں انتخابات تبدیلی یا کسی انقلاب کا پیش خیمہ نہیں بنتے بلکہ سٹیٹس کو برقرار رکھنے کا ایک مؤثر اور جائز طریقہ تصور کیے جاتے ہیں۔   اب حالیہ امریکی انتخابات کی ہی مثال لے لیتے ہیں، حالانکہ ان انتخابات کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ یہ بڑے یادگار ہونگے، ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، اور پورے امریکہ میں ایک سرخ لہر (سْرخ رنگ ری پبلکن پارٹی کا رنگ ہے، جیسے نیلا رنگ ڈیموکریٹس کا ہے) آئی ہوئی ہے، جو ڈیموکریٹس کو بہاکر لے جائیگی، بالکل پاکستان والے حالات کا سامنا تھا کہ جس طرح یہاں عمران خان کا طوطی بول رہا ہے کہ اب الیکشن ہوئے تو باقی سیاسی جماعتوں کا صفایا ہوجائیگا، اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت کے چرچے زبان زد عام تھے۔ مگر نتائج اس توقع کے مطابق نہیں آئے۔ موجودہ انتخابی نتائج کا اگر انتخابات سے پہلے کی صورتحال سے مقابلہ یا موازنہ کریں تو شاید انیس بیس کا فرق بھی نظر نہ آئے۔ کانگرس، یعنی سینٹ اور ایوان نمائندگان میں انتخابات سے پہلے کی صورتحال یہ تھی کہ سینٹ میں دونوں سیاسی جماعتوں کے منتخب ارکان کی تعداد برابر تھی، یعنی انچاس ری پبلکن اور انچاس ہی ڈیموکریٹ سینٹرز تھے، دو آزاد ارکان سینٹرز ہیں۔ اب 35 سیٹوں پر انتخاب ہوا ہے، جن میں سے 21 ڈیمو کریٹس اور 14 ری پبلکن سیٹس ہیں، ڈیمو کریٹس 20 اور ری پبلکن اپنی 14سیٹس جیت گئی ہیں۔ ڈیموکریٹس نے پنسلوانیا سے اپنی ایک سیٹ ہاری ہے۔ مگر باقی سب لوگ دوبارہ منتخب ہو کر آگئے ہیں، شاید صرف ایک سیٹ کی برتری ری پبلکن کو اکثریت دلادے۔ دو سال پہلے 3 نومبر 2020ء کو ہونیوالے انتخابات میں صدر جو بائیڈن کی ڈیمو کریٹک پارٹی کو کْل 435 کے ایوان نمائندگان میں دو ارکان کی برتری سے اکثریت ملی تھی ، انکے ارکان کی تعداد 220 تھی، اور اب ری پبلکن پارٹی کو دو چار ارکان کی سبقت مل جائیگی۔ 
 ان انتخابات میں اب تک 16 ارب ڈالرز خرچ ہوچْکے ہیں، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ایک شور اور ہنگامہ بپا ہے، گلی گلی میں شور ہے، ایک ہیجان کی سی کیفیت ہے، درجنوں نہیں سینکڑوں اور ہزاروں کاروبار انتخابات سے جْڑے ہوئے ہیں، ایک میلہ سجا ہے، اس میلہ میں بظاہر لگتا تو یہ ہے کہ سب کْچھ عام لوگوں کی تفریح اور تواضع کیلئے ہے، جب آنکھ کھلتی ہے تو سمجھ آتی ہے کہ یہ سب کْچھ تو سرمایہ داری کا پہیہ گھمانے کیلئے ایک ٹول یا آلہ کار کے سوا کْچھ نہیں، اسکے پیچھے سیاست نہیں بلکہ معیشت ہے، اسے ہی انتخابات کی سیاسی معیشت یعنی پولیٹکل اکانومی کہتے ہیں۔ 
امریکی وسط مدتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی کے بارے میں لگا ئے گئے سیاسی پنڈتوں کے تمام اندازے غلط ثابت ہوگئے ہیں، اس سے سبق یہ ملتا ہے کہ یہ پاکستان کے آئندہ انتخابات میں بھی دہرایا جاسکتا ہے کہ عمران خان کی واضح نظر آنیوالی جیت کے بارے میں اندازے غلط نکلیں۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ انتخابات میں وہ ایک دن، سب سے اہم ہوتا جس دن پولنگ ہوتی ہے، سالہا سال کی گئی محنت کا فیصلہ صرف چند گھنٹوں میں ہونا ہوتا ہے، مگر ایک سیاسی مفکر ہی سب سے بہتر بتاسکتا ہے کہ اس ایک دن، یعنی پولنگ ڈے کی تیاری کیسے کرنی چاہیے۔

ای پیپر-دی نیشن