• news

سورۃ بقرہ کے مضامین (31)


 حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوت توحید کی خبر اس زمانے کے بادشاہ نمرود تک پہنچی تو اس نے آپکو پرسش کیلئے اپنے دربار میں بلوالیا، نمرود عراق کا مطلق العنان بادشاہ تھا، اس زمانے کے بادشاہ اپنے آپ کو دیوتا کے ’’اوتار‘‘کی حیثیت سے پیش کرتے تھے ، چین ، ہندوستان ،  مصر میں یہ چلن عام تھا، یعنی انکی قوم میں جن دیوتا ئوں کی پرستش کی جاتی ، بادشاہ ان میں سے بڑے دیوتا کامظہر سمجھاجاتا ہے، اس طرح بادشاہ کو سیاسی اور مذہبی دونوں قسم کا اقتدار حاصل ہوجاتا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم مظاہر قدرت کی پوجا کرتی تھی ، سورج ، چاند ، ستارے انکے معبود تھے،اوربت اور بادشاہ انکے مظہرارضی۔ نمرود نے جب حضرت ابراہیم ؑکی دعوت کے بارے میں سنا تو اس کیلئے یہ بات ناقابل برداشت تھی کہ اسکی مزعومہ خدائی میں کسی اورکی الوہیت کی دعوت دی جائے۔ قرآن نے ارشاد فرمایا : کہ اسے اقتدار اور بادشاہت اللہ نے عطاء فرمائی تھی لیکن اکثر صاحبان اقتدار غرور اورتکبر کا شکا ر ہو جاتے ہیں اورشکر وعاجزی کا طریقہ اختیار کرنے کی بجائے، تکبر وسرکشی کا راستہ اختیار کرتے ہیں، اقتدار ومملکت کو اللہ رب العزت کا فضل وکرم سمجھنے کی بجائے اپنے ، علم ، تدبر اورسیاست کا ثمرہ سمجھ بیٹھے ہیں ۔نمرود نے جب حضرت ابراہیم ؑسے استفسار کیاکہ آپ کس پروردگار کی پرستش کی بات کرتے ہیں تو آپ نے ارشادفرمایا، میرا رب وہ ہے جس کی اختیار میں زندگی اورموت ہے ، جو سلیم الفطرت شخص میں زندگی اور موت کے نظام پر غور کریگا وہ اس حقیقت کوپالے کہ یہ نہ تو اسکے اپنے اختیار میں ہے اورنہ ہی اس جیسی کسی اور مخلوق کی دسترس میں، جن لوگوں کو طب وحکمت سے بڑی شناسائی ہوتی ہے وہ بھی موت سے ہم کنار ہوجاتے ہیں حتیٰ کہ جن لوگوں کو الوہی اختیار کا دعویٰ ہوا ہے وہ بھی ایک عالم بے چارگی میں موت کے گھاٹ اتر گئے ، لیکن نمرود کے دماغ میں چونکہ اقتدار کا خنّاس سمایا ہوا تو، اس لیے اس نے اس واضح حقیقت کو غوروفکر کرنے کی بجائے یہ بے تکی بات کہہ دی کہ موت اورزندگی پر تو میں بھی اختیار رکھتا ہوں جسکا سرچاہوں قلم کردوں، جسکے بارے میں چاہوں موت کا حکم صادر کردوں ، جسے چاہوں بخش دوں اورعین تختہ دار پر سے اسے واپس بلالوں یا جلاد کی اٹھی ہوئی تلوار کو واپس نیام میں رکھنے کا حکم دے دوں ، حضرت ابراہیم ؑکی دلیل میں جو لطافت تھی، نمرود کی بات اسکے بالکل برعکس تھی، آپ اس پر معارضہ فرما سکتے تھے، لیکن آپ سمجھ گئے کہ یہ کٹ حجتی پر اترآیا ہے۔اس لیے آپ نے بحث وتکرار میں الجھنے کی بجائے اپنے پاک پروردگار کادوسرا وصف بیان فرمادیا، آپ نے فرمایا میرا رب تو وہ ہے جو ہرروز سورج کو مشرق سے طلوع کرتا ہے اگر تمہیں بھی پندار خدائی ہے تو تم اس کو مغرب سے طلوع کرکے دکھادو، آپکی ناقابل تردید دلیل سن کر نمرود ہکا بکا ہوکر رہ گیا۔ اس دلیل میں جہاں اسکی بے بسی کی مکمل عکاسی تھی، وہیں پرانکے مذہبی رحجانات اورسورج ،دیوتا کانام نہاد اوتار ہونے کی قلعی بھی کھول کررکھ دی گئی تھی۔

ای پیپر-دی نیشن