جمعرات ،21 ربیع الثانی ھ، 1444، 17 نومبر 2022ء
لاہور میں روٹی 14 اور نان 22 روپے کا ہو گیا۔ چاول 20 روپے کلو مہنگے
کسی پنجابی شاعر نے کیا خوب کہا تھا
بندے روٹی کی کھانی اے
روٹی بندہ کھا جاندی اے
بے شک عوام کے پاس یہی روٹی رہ گئی تھی جو کم از کم اس کی دسترس میں رہنی چاہیے ۔ مگر اب مہنگائی کے نام پر ذخیرہ اندوز اور مہنگائی پھیلانے والے مافیاز نے جن میں ملز مالکان، آڑہتی، دکاندار اور تندور والے شامل ہیں مل کر غریبوں سے یہ روٹی کا نوالہ بھی چھین لیا ہے۔ 14 روپے کی کاغذی روٹی ملے گی تو کون پیٹ بھر کر کھائے گا۔ اس کم وزن روٹی سے تو بچے کا پیٹ بھی نہیں بھرتا۔بس اب بہت ہو گیا حکمرانوں کی نالائقیاں حد سے گزر گئی ہیں۔ سچ کہیں تو عام آدمی کے لیے روٹی ہی اس کی ریڈ لائن ہو گئی ہے جو اسے پار کرے گا وہ ضرور عوامی غیض و غضب کا شکار ہو گا۔ یہ ہم نہیں کہتے یہ بات برسوں پہلے مفکر پاکستان حضرت علامہ اقبال نے کہہ دی تھی کہ
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امرا کے در و دیوار ہِلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
اب روٹی کا نوالہ غریب کے منہ سے چھن جانے کے بعد لگتا ہے یہ وقت جلد آ رہا ہے جب حقیقت میں ایسا ہی ہو گا۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں اس طوفان کے آگے بند باندھنے کے لیے آگے بڑھیں ورنہ اٹھنے والے یہ طوفاں تنکوں سے نہ ٹالیں جائیں گے۔ اب بھی وقت ہے حالات سنبھال لیں۔ غریب کو زندہ رہنے کے لیے واحد دستیاب چیز روٹی اس کے ہاتھ سے نہ چھینیں۔
٭٭٭٭
عمران کو 4 گولیاں لگنا ثابت ہو جائے تو استعفیٰ دے دوں گا۔ رانا ثناء
خدا خدا کر کے رانا ثنااللہ صحت یاب ہوئے اب انہیں چاہیے تھا کہ وہ چند دن آرام کرتے۔ یہ دل کا معاملہ ہے۔ مگر کیا مجال ہے جو وزیر داخلہ کو اپنے دل کی رتی بھر بھی پرواہ ہو۔ ذرا سا دل کیا سنبھلا۔ بستر سے اٹھتے ہی لگے عمران خان کے لتے لینے۔ اب یہ بات سب جانتے ہیں کہ عمران خان گولی لگنے یا اس کے چھرے لگنے سے زخمی ہوئے۔ ان کی ٹانگ میں گزشتہ روز جاری تصاویر کے مطابق 2 جگہ گہرے زخم ہیں۔ معلوم نہیں ڈاکٹروں نے ان زخموں پر ابھی تک ٹانکے کیوں نہیں لگائے ورنہ چوٹ یا زخم کی صورت میں فوری طور پر رفوگری کرتے ہوئے ٹانکے لگائے جاتے ہیں۔ بہرحال یہ ڈاکٹری معاملہ ہم جیسے لوگ سمجھ نہیں سکتے۔ اب وزیر داخلہ جو فی الحال طبی طور پر عالم بیماری میں ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ دوسروں کے زخم کریدنے کی بجائے اپنی فکر کر یں اور اپنے دل ناتواں پر اتنا بوجھ نہ ڈالیں جو وہ اس کی برداشت سے باہر ہو ورنہ بعد میں مرزا غالب کی طرح
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
ہم ہیں مشتاق اور وہ بے بیزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے
کہتے ہوئے نظر آئیں۔ رہی بات سیاست چھوڑنے کی تو یہ بھی وہی ’’چھٹتی نہیں ہے منہ کو یہ کافر لگی ہوئی‘‘ والی بات ہے سیاست اور انگور بیٹی میں یہی تو خوبی ہے کہ جو ان کا دیوانہ ہو گیا وہ پھر کسی بھی صورت ان سے کنارہ کشی کا تصور بھی نہیں کر پاتا۔ ان باتوں سے سیاست سے نہ عمران خان دستبردار ہو سکتے ہیں نہ خود رانا ثناء اللہ سیاست چھوڑ سکتے ہیں۔ ہاں البتہ ایسے بیانات سے شاید سنجیدہ لوگ بدظن ہو کر سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لیں مگر یہ بھی غور طلب بات ہے کہ ہمارے ملک میں جہاں ہر طرف جذباتیت کا راج ہے سنجیدہ معاملہ فہم لوگ رہ ہی کتنے گئے ہیں۔
٭٭٭٭
ایس ایچ او کھاریاں سرکاری گاڑی پر ڈھول لیکر مارچ میں پہنچ گیا
جب حکومت اپنی ہو اختیارات اپنے پاس ہوں تو پھر شرمانا کیسا۔ اپنی حکومت کو خوش کرنے کے لیے اب اس تھانیدار نے جو کچھ کیا اس میں برائی ہی کیا ہے۔ لانگ مارچ بھی حکومت پنجاب کے زیر سایہ اس کی اتحادی جماعت کر رہی ہے تو شرکا کا دل خوش کرنے کے لیے انہیں اپنے علاقے میں دماغی سکون مہیا کرنے کے لیے اگر ایس ایچ او کھاریاں پولیس کی گاڑی میں ڈھول بجانے والے بھر کر لائے اور جب انہوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور تھانیدار اور اس کے دوستوں نے 5،5 ہزار کے نوٹ ایک دوسرے پر نچھاور کیے تو اس میں کوئی بری بات نہیں۔ یہ پیسہ بھی تو خرچ کرنے کے لئے ہی ہوتاہے ۔ بہرحال یہ جو کچھ بھی ہوا ہے یہ ہماری پنجاب انتظامیہ کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے۔ اعلیٰ افسران سرکاری پروٹوکول اور ڈیوٹیوں میں مصروف ہیں تو چھوٹے افسر اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ساس ہمارے گھر نہیں ہم کو کسی کا ڈر نہیں کے مقولے پر عمل کر رہے ہیں۔ تھانیدار سے کس نے پوچھنا ہے کہ بھیا یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ لگتا ہے وہ پی ٹی آئی کے شیدائی اور ق لیگ کے فدائی ہیں۔ انہیں دونوں طرف سے ٹھنڈی ہوائیں آ رہی ہیں۔ ویسے بھی ہر ایک کو اپنی پارٹی کی حمایت کرنے کا حق ہے۔ کیا پولیس اہلکار دل نہیں رکھتے۔ ان کے سینے میں بھی دل ہوتا ہے اور پھر دل تو ویسے ہی پاگل ہوتا ہے۔ کبھی کبھی وہ کچھ کر جاتا ہے جو نہیں کرنا چاہیے۔ ایسا ہی معاملہ اس تھانیدار کے ساتھ بھی ہوا ہو گاورنہ کوئی سرکاری اہلکار ایسی حرکت نہیں کرتا۔
٭٭٭٭
سندھ کے اکثر علاقے ابھی بھی سیلاب میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ بلاول
تو جناب ذرا اپنے وزیر اعلیٰ کی گوشمالی کریں سندھ حکومت کی چھترول کریں کہ ایسا کیوں ہے۔ یہ وزرا اور مشیر آخر کس مرض کی دوا ہیں۔ انہیں کراچی سے نکال کر ان کے اپنے اپنے سیلاب زدہ علاقوں میں اٹھا کر پھینکیں پھر دیکھیں کیسے چند دنوں میں پانی نکلتا ہے۔ آپ خود ذرا کراچی کے بلاول ہائوس سے نکل کر اسلام آباد کے محل کو چھوڑ کر اپنے علاقے نوابشاہ جا کر بسیرا کریں تو وہاں کی انتظامیہ بھی تیر کی طرح سیدھی ہو جائے گی اور سیلاب کے پانی کا نام و نشان مٹا کر دم لے گی۔ یہ کیا کہ آپ نے سندھ حکومت نے اپنے ووٹروں اور عوام کو سیلاب کے پانی میں ڈوبنے کے لیے مرنے کے لیے چھوڑا اور خود عیش کر رہے ہیں۔ جہاں کہیں بھی کوئی کام نہیں ہوتا وہاں جا کر وزیر اور مشیر خود بیٹھ جائیں پھر دیکھیں وہ کام ہوتا ہے یا نہیں۔ بس یہی فارمولا ہے کام نکلوانے کا ورنہ صرف بیان داغنے سے کوئی کام نہیں ہوتا۔ اس لیے اب بلاول زرداری ہوں یا مراد علی شاہ ، خورشید شاہ ہوں یا شیری رحمن یہ سب اگر اپنے اپنے حلقوں میں جا کر ڈیرے ڈالیں تو عوام کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ یہی ان کی کارکردگی کا امتحان ہے ورنہ اگلے امتحان یعنی الیکشن میں یہ بھول جائیں کہ یہ کامیاب ہوں گے یا انہیں کوئی ووٹ دے گا۔ سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کے دوران عوامی جذبات اور مخالفانہ نعرے سن کر انہیں عوام کے موڈ کا اندازہ تو ہو ہی گیا ہو گا۔
٭٭٭٭