• news
  • image

ملکی ترقی کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے


ملکی موجودہ صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے سینئر صحافی چوہدری غلام حسین اور معروف کالم نگار مظہر برلاس نے صدر پاکستان عارف علوی کے ساتھ گورنر ہاؤس لاہور میں سینئر اور نوجوان صحافیوں کی نشست کا اہتمام کیا۔ پورے تین بجے گورنر ہاؤس کے دربار ہال میں صدر عارف علوی تشریف لائے اور اپنی نشست پر براجمان ہو گئے۔ چوہدری غلام حسین نے اسی بات سے آغاز کیا کہ ملک میں جو غیر یقینی اور سیاسی عدم استحکام چل رہا ہے اس پر صدر عارف علوی کیا کوششیں کر رہے ہیں اور کب ملک ٹھیک سمت کی طرف گامزن ہو سکتا ہے اس پر ہال میں بیٹھے تمام افراد براہ راست صدر پاکستان سے سوال کر سکتے ہیں تا کہ گفت و شنید سے کوئی حل نکل سکے۔ تمام صحافیوں نے صدر پاکستان سے سخت سوالات کئے مگر انھوں نے خندہ پیشانی سے جوابات دئیے۔ اس موقع پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ وہ اپنی ذاتی حیثیت میں اسٹیک ہولڈرز کو ایک میز پر لانے اور انکے اختلافات کو جمہوری طریقے سے بات چیت، مشاورت اور غور و خوض اور باہمی اتفاق رائے سے حل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ بڑے مسائل اور معاملات کا حل وسیع تر اتفاق ِرائے سیاسی پولرائزیشن کو کم کرنے کیلئے ضروری ہے،۔ وہ چاہتے ہیں کہ اسٹیک ہولڈرز کو ایک میز پر لایا جائے اور انہیں بات چیت کا موقع فراہم کیا جائے تاکہ باہمی اتفاق رائے سے مسائل کے حل کے امکانات پیدا ہو سکیں اور ان تنازعات پر بات ہو سکے جو ملک میں سیاسی پولرائزیشن کو کم کر سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی کوششوں سے ذہنی فاصلوں کو کسی حد تک کم کرنے کی طرف کچھ اثر ہوا ہے۔ ملک میں سیاسی استحکام لانے کیلئے آئین و قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کوششیں کی گئی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ ملک کو مضبوط اور موثر اداروں کی ضرورت ہے اور انہیں مضبوط بنانے اور آئین کے مطابق اپنے فرائض سرانجام دینے کیلئے ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے۔ تمام اسٹیک ہولڈر مل کر بیٹھ سکتے ہیں اور آئندہ عام انتخابات کے لیے باہمی اتفاق سے تاریخ طے کر سکتے ہیں جو آزادانہ، منصفانہ اور شفاف طریقے سے منعقد ہونے چاہئیں اور اسی سے سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ اسٹیک ہولڈرز کو انتخابات میں کارکردگی، شفافیت اور منصفانہ بنانے کیلئے ٹیکنالوجی کے استعمال پر بھی غور کرنا چاہیے۔
 حکومت اور اداروں کو ایک وسیع تر وژن اور مشن پر توجہ دینی چاہیے اور چھوٹے موٹے معاملات و مسائل میں الجھنے سے گریز کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنا وقت اور توانائیاں نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کو اپنانے پر مرکوز کرنے کی ضرورت ہے، مسائل اور چیلنجز کو حل کرنے کیلئے آؤٹ آف دی باکس حل تلاش کرنے اور ملک کو آگے لے جانے کیلئے ہر موقع سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ مہنگائی، معیشت، خدمات کی فراہمی میں بہتری اور سیاسی پولرائزیشن کو کم کرنے جیسے مسائل اہم ہیں جن کو ان کی رائے میں ترجیحی طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک سوال کے جواب میں صدر مملکت نے کہا کہ ارشد شریف نے انہیں اپنی جان کو لاحق خطرات سے متعلق خط بھیجا اور وہ خط اپنے تبصروں کے ساتھ وزیراعظم کو بھجوا دیا۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا جمہوری نظام کا ایک لازمی حصہ ہے اور اسے آئین اور قوانین کی متعلقہ شقوں کے تحت بغیر کسی خوف و ہراس کے آزادی سے اپنے فرائض سرانجام دینے چاہئیں۔جبکہ جعلی خبریں ایک ’’غیبت‘‘ کی طرح ہوتی ہیں، کوئی بھی بیان حوالہ اور سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا جاتا ہے جو بعض اوقات سنگین نتائج کا باعث بنتا ہے۔ ہمیں ہر خبر کی تصدیق کے لیے خود کو تربیت دینی چاہیے اور جعلی اور غیر تصدیق شدہ خبروں کی تشہیر کا آلہ کار نہیں بننا چاہیے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کو معیاری تعلیم فراہم کرنے اور مارکیٹ پر مبنی تحقیق اور ترقی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور 25 ملین سکولوں سے باہر بچوں کو آؤٹ آف دی باکس سلوشنز کا اطلاق کر کے سکولوں میں لانے کی ضرورت ہے۔
 ہمیں صحت مند طرز زندگی کو فروغ دینے، جلد تشخیص کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے، غذائیت کی کمی اور کمزور آبادی کو متوازن خوراک فراہم کرنے کے ذریعے بیماریوں سے بچاؤ کیلئے اپنی توانائیاں صرف کرنی چاہئیں۔ ہمیں اپنے لوگوں کو گلوبل وارمنگ کا مقابلہ کرنے اور اس کے نقصان دہ اثرات کو کم کرنے اور قدرتی آفات کے اثرات کو کم کرنے کیلئے مہارت، علم اور معلومات فراہم کرنے کیلئے تعلیم دینی چاہیے۔
آخر میں کچھ صحافیوں نے اس ماہ ہونے والی اہم تقرری پر سوال کیا تو صدر نے جواب گول کر دیا۔ بہرحال اس نشست کے بعد یہ باور ہو گیا کہ ملکی ترقی کیلئے سیاسی استحکام ضروری ہے اور غیر یقینی کی صورتحال پر قابو پانے کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک میز پر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن