سراج الحق کا عمرانی معاہدہ
خان صاحب نے ایک بار پھر ”سازش“ کا بیانیہ دہرایا ہے۔ لانگ مارچ (؟) کے شرکا سے اپنے غائبانہ خطاب (میرا خیال ہے، عکسی خطاب کہنا زیادہ ٹھیک رہے گا) میں انہوں نے کہا کہ ملک ترقی کر رہا تھا لیکن سازش کر کے میری حکومت ختم کر دی گئی اور چور ڈاکو حکومت پرمسلّط کر دئیے گئے۔
قابلِ ذکر یہ بات ہے کہ امریکہ کا ذکر اس بار سازش کے ساتھ شامل نہیں کیا۔ یعنی کچھ دن پہلے تک جو سازش خالصتاً امریکی تھی اور مقامی میر جعفر اور میر صادق اس کے سہولت کار بنے، اب اچانک دیسی سازش میں بدل گئی ہے۔ امریکہ کو باعزت بری کر دیا ہے۔ امریکہ کو یہ بریت مبارک ہو۔ اب سازش کا سارا مدّعا میر جعفروں پر آ گیا ہے۔ یا اللہ ، میر جعفروں کی خیر۔ لیکن شاید اتنی جلدی نہیں کرنی چاہیے۔ کیا پتہ مستقبل قریب میں یہ حضرات بھی بری ہو جائیں، سازش کا سارا بار شہباز اور زرداری پر ڈال دیا جائے۔ اس سلسلے میں اعتزاز احسن کی ماہرانہ رائے لی جا سکتی ہے۔ وہ کہا کرتے ہیں، جرم کوئی بھی ہو، ٹار ثبوت نواز شریف پر ہے۔ سازش کے بیانیے کی اس الجھن کو وہی سلجھا سکتے ہیں۔
___________
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے فرمایا ہے کہ ملک کو نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے اور بحران کا تقاضا ہے کہ الیکشن جلد کرا دئیے جائیں۔
جلد الیکشن کرانے کا مطالبہ ایک روز پہلے صدر علوی صاحب نے بھی کیا تھا۔ سراج الحق صاحب اگر اسی روز اپنا یہ مطالبہ جاری کرتے تو شاید اکٹھا چھپ جاتا اور موثر ثابت ہوتا کیونکہ معاملہ ایک اور ایک گیارہ کا ہو جاتا۔ لیکن اب چونکہ انہوں نے ایک دن کی تاخیر کر دی ہے لہٰذا معاملہ ایک اور ایک دو ہی کا رہے گا۔
نئے عمرانی معاہدے کا مطلب نیا دستور بنانا ہے۔ ویسے ممکن ہے، سراج الحق صاحب کے مطالبے کا بین السطور نیا دستور نہ ہو بلکہ عمران خان کے نام کی مناسبت سے انہوں نے یہ اصطلاح استعمال کی ہو۔ ایسی صورت میں مطلب یہ نکلتا ہے کہ عمران خان صاحب سے عمران خان کی مرضی کا معاہدہ کر لیا جائے تاکہ عمرانی تقاضے اچھی طرح پورے ہو سکیں۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سراج الحق کی مراد دونوں ہی سے ہو۔ یعنی نیا دستور بنا کر صدارتی نظام نافذ کیا جائے اور عمران خان کو صدر مقرر کر دیا جائے۔ ایسی صورت میں نئے انتخابات کا مطالبہ غیر ضروری ہے۔ ایسا ہو جائے تو پھر الیکشن وغیرہ کے جھمیلے سے خاصے لمبے عرصے کے لیے جان چھوٹ جائے گی۔ سنا ہے، سراج الحق صاحب ان ”گڈ اولڈ ڈیز“ کو گاہے گاہے یاد کیا کرتے ہیں جو پختونخواہ کی مخلوط حکومت میں انہوں نے خان صاحب کے سایہ¿ عافیت و راحت میں گزارے۔
___________
لیجئے اب تو شیخ رشید نے بھی تصدیق کر دی کہ نواز شریف دسمبر میں وطن واپس آ رہے ہیں اور وہ نیو ایرنائٹ پاکستان ہی میں منائیں گے۔ ان کے بیانات شناس اچھی طرح جانتے ہیں کہ شیخ جی کی بات کا مطلب سمجھنے کا ایک ہی فارمولا ہے۔ یہ کہ جہاں جہاں نہ اور نہیں کا لفظ ہو ، کاٹ دو اور جہاں یہ لفظ نہ ہوں، وہاں لگا دو۔ ٹھیک ٹھیک مطلب سمجھ میں آ جائے گا چنانچہ ان کے تازہ بیان کے اصل الفاظ یہ ہیں کہ نواز شریف دسمبر میں نہیں آ رہے، نیو ایر نائٹ وہ لندن میں منائیں گے۔ امید ہے آپ شیخ جی کے ٹھیک مطلب کو ٹھیک طرح سے سمجھ گئے ہوں گے۔
ضمنی طور پر یہ بات بھی سمجھ میں آ گئی ہو گی کہ میاں صاحب نیو ایر نائٹ نہیں مناتے۔ جشن میلاد کی رات البتہ مناتے انہیں بہتوں نے دیکھا ہے۔ نیوایر نائب کی زیادہ بلکہ بہت زیادہ مناسبت پی ٹی آئی کے اہل شباب سے ہے بلکہ اب تو ھالو وین نائٹ بھی ”اشرافیہ“ کا تہوار بنتا جا رہا ہے۔
___________
ہالو وین سے ایک بات یاد آئی۔ پچھلی 31 تاریخ کو جب یہ تہوار منایا گیا تو اس سے پہلے ایک بیان کسی اخبار کے اندرونی صفحات پر دیکھا جس میں اس کی مخالفت کی گئی تھی اور یہ تاثر بنتا تھا کہ شاید یہ عیسائیوں کا تہوار ہے۔
عیسائیوں کا نہیں، یہ یورپیوں کا تہوار ہے۔ ابتدا اس کی کیلٹک CEITIC دور سے ہوئی یعنی وہ جو پیگن مذہب کا قبل از مسیحی دور تھا۔ پیگن لوگوں کا اعتقاد تھا کہ اس تاریخ کو مرنے والوں کی روحیں دنیا میں اپنے اپنے گلی محلّے کا رخ کرتی ہیں اور انہیں نقصان پہنچاتی ہیں۔ جس پر اس رات سارے لوگ ڈراﺅنے بھیس بدل کر گھوما کرتے تھے تاکہ یہ روحیں بلکہ بدروحیں ڈر کر لوٹ جائیں۔ وہ دور مسیحیت کی آمد کے ساتھ ختم ہو گیا اور ساتھ ہی یہ عقیدہ بھی لیکن یورپیوں نے یہ تہوار باقی رکھا۔ اب یہ عقیدے کا نہیں، شغل میلے کا تہوار ہے ۔
ظاہر ہے مسیحی عقیدہ یہ نہیں ہے کہ مرنے والوں کی روحیں بدروحوں میں بدل کر واپس آتی ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ مرتے ہی آدمی اپنے اعمال کے حساب سے سیدھا جنت یا دوزخ میں جاتا ہے۔ ہندو دھرم کا ابتدائی عقیدہ بھی یہی تھا کہ مرتے ہی آتما سورگ یا نرکھ جاتی ہے۔ یہ بدروح یعنی پریت آتما کا عقیدہ بعد میں آیا۔ مسلمانوں کا عقیدہ تھوڑا سا مختلف لیکن درحقیقت ملتا جلتا ہے کہ روح برزخ جاتی ہے، وہیں رہتی ہے اور قیامت کے بعد ہی اسے اصل ٹھکانے کا پتہ چلتا ہے۔ ملتا جلتا ہونے کی بات یوں ہے کہ صحیح روایات میں ہے کہ برا آدمی عذاب قبر سے گزرتا ہے (یعنی برزخ میں دوزخ کا سا سماں اور نیک آدمی کی قبر میں جنت کی کھڑکی کھل جاتی ہے۔ یعنی برزخ ہی میں جنت یا دوزخ کا ماحول بن جاتا ہے اور روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ قیامت کے روز برے آدمی کو جتنی سزا برزخ میں مل چکی، وہ اس کے اعمالنامے کی بیلنس شیٹ سے کاٹ لی جائے گی۔ اور روایات کے مطابق بعض برے آدمی برزخ گزار کر ہی پاک صاف ہو جائیں گے یعنی ان کے گناہ اتنے کم ہوں گے کہ یہیں مٹ جائیں گے۔
روحوں کی واپسی کا عقیدہ بعض مسلمان بھی رکھتے ہیں لیکن قرآن میں صاف بات کی گئی ہے۔ یعنی روح اعلیٰ علییّن جائے گی یا پھر سجیّن (پاتال)میں۔ دنیا میں واپسی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ یہ دونوں مقامات برزخ میں ہیں۔
___________
جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں وہ خود ہی غور فرمائیں۔ اگر بھوت آتماﺅں، پریتوں اور روحوں کو واپس آنے اور بدلہ لینے کی اجازت اور طاقت ہوتی تو دنیا میں کوئی قاتل اور ظالم ان کے ہاتھوں بچ نہ پاتا۔ پھر عدالت استغاثے کے چکر کی ضرورت ہی نہ رہتی۔
وہم کی بات ہے
سب خرافات ہے