• news
  • image

پاکستان ہاکی پراجیکٹ لانچ کرینگے

حافظ محمد عمران 
فیڈریشن آف انٹرنیشنل ہاکی کے نومنتختب صدر طیب اکرام کا شمار دنیائے ہاکی کے معروف منتظمین میں ہوتا ہے۔ کھیل میں بین الاقوامی سطح پر اُن کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ دنیا میں ہاکی کھیلنے والے ممالک اُنہیں کس قدر باصلاحیت سمجھتے ہیں اس کا اندازہ صدر انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کے عہدے کے انتخابی نتائج کو دیکھتے ہوئے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے طیب اکرام کا مقابلہ بیلجیئم کے مارک کیوڈن سے تھا اس اہم ترین عہدے کے لیے پاکستان سمیت 129 ارکان نے ووٹنگ میں حصہ لیا اور طیب اکرام 79 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جبکہ اُن کے مدمقابل صرف 47 ووٹ حاصل کر سکے۔ فتح کا یہ فرق ثابت کرتا ہے کہ طیب اکرام دنیائے ہاکی میں کیا مقام رکھتے ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ انہوں نے مسلسل محنت لگن ، جدوجہد ، کارکردگی ، پیشہ وارانہ مہارت ، وعدوں کی تکمیل ، کھیل میں بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق جدت اور ہر طرح کی مصلحتوں اور وابستگی سے بالاتر ہو کر میرٹ پر کام کرتے ہوئے دنیائے ہاکی کے لیے کام کیا ہے۔ وگرنہ لوگ اتنی اہم پوزیشن کے لیے کبھی اُن پر اعتماد نہ کرتے۔ طیب اکرام نے اپنے کیرئیر میں ناصرف کھیل کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا بلکہ انہوں نے اس دوران ہاکی کھیلنے والے ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات بھی قائم کیے۔ بامعنی ، بامقصد، فکری اور نرم گفتگو اُن کی شخصیت کا خاصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناصرف دنیائے ہاکی کے بڑے ممالک بلکہ ترقی پذیر ممالک میں بھی وہ یکساں مقبول ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ بہت بڑا اعزاز ہے کہ ایک ایسے دور میں جب پاکستان کی ہاکی کچھ زیادہ اچھے الفاظ میں زیر بحث نہیں آتی پاکستان کی ہاکی زوال کا شکار ہے پاکستان کی ٹیم بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کی اہلیت نہیں رکھتی ، غیر ملکی ٹیمیں پاکستان آ کر کھیلتی نہیں ہیں۔ پاکستان کی ٹیم بمشکل سال میں ایک یا دو مرتبہ غیر ملکی دوروں پر جاتی ہے۔ ان حالات میں طیب اکرام کا ایف آئی ایچ کا صدر بننا ایک بہت بڑی خبر ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان طیب اکرام کی صلاحیتوں اور اُن کے تعلقات سے قومی کھیل کے فروغ اور بہتری کے لیے فائدہ اٹھا سکتا ہے یا نہیں اور پاکستان کو طیب اکرام کی موجودگی میں کیا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس حوالے سے بہت سے معاملات پر کام ہونا باقی ہے۔ 
انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کے نومنتخب صدر طیب اکرام کا کہنا ہے کہ میری کامیابی کے لیے دعا کرنے، تعاون کرنے اور حوصلہ افزائی کرنے والوں کا مشکور ہوں۔ میری کامیابی پاکستان کی کامیابی ہے اور یہ پاکستان کے لیے اعزاز ہے۔ ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے کوشش کی جائے گی کہ اپنے قومی کھیل کی بہتری کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں ،قواعد و ضوابط پر عمل کرتے ہوئے ہر وہ کام کیا جائے جس سے پاکستان کی ہاکی کو فائدہ ہو پاکستان کا قومی کھیل دوبارہ ماضی والے مقام پر آئے اور اپنا  حقیقی مقام دوبارہ حاصل کریں۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن کی انتظامیہ ، سیکرٹری جنرل حیدر حسین کے ساتھ مل کر کام کریں گے اور پاکستان ہاکی کی ڈویلپمنٹ پر کام کیا جائے۔ ایگزیکٹیو بورڈ کو میری تجویز ہو گی کہ ’’پروجیکٹ پاکستان ہاکی‘‘ لانچ کیا جائے، ایسا ہی ایک پروجیکٹ ہم نے ہاکی انڈیا کے لیے بھی شروع کیا تھا اور دنیا کے مختلف ممالک میں کھیل کی بہتری کے لیے فیڈریشن آف انٹرنیشنل ہاکی اور ایشین ہاکی فیڈریشن اپنی سطح پر رہتے ہوئے ایسے منصوبوں پر کام کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی ہاکی دنیا کی ضرورت ہے اور اگر پاکستان اور انڈیا کی ہاکی مضبوط ہوتی ہے تو بین الاقوامی سطح پر یہ دونوں ٹیمیں اچھی ہاکی کھیلتی ہیں یا آمنے سامنے آتی ہیں تو اُن مقابلوں سے صرف پاکستان اور انڈیا ہی نہیں بلکہ دنیائے ہاکی کو فائدہ ہوتا ہے۔ ان دونوں ملکوں کی ہاکی کے ساتھ لوگوں کی بہت بڑی تعداد جڑی ہوئی ہے اور لوگ جذباتی انداز میں پاکستان انڈیا کے ہاکی میچز کو دیکھتے ہیں۔ اس لیے دنیا بھر میں ہاکی کے فروغ کے لیے اور شائقین کو اکٹھا رکھنے،  انہیں جوڑنے اور سٹیڈیمز تک لانے کے لیے معیاری ہاکی نہایت اہم ہے۔ جس خطے میں پاکستان اور انڈیا موجود ہیں یہاں کی آبادی اور لوگوں کی کھیل سے جذباتی وابستگی کو دیکھتے ہوئے ہاکی کے معیار کو بلند رکھنا دنیائے ہاکی کے لیے فائدہ مند ہے۔ جب ہم نے ہاکی انڈیا کے لیے ایک پروجیکٹ لانچ کیا تو انہوں نے مکمل توجہ ، پیشہ وارانہ مہارت کے ذریعے اس منصوبے پر کام کیا۔ اس حوالے سے نریندر بترا کا کردار نہایت اہم ہے۔ انہوں نے اس پروجیکٹ کو کامیاب بنانے کے لیے بہت محنت کی اور انہیں بھارت میں کام کرتے ہوئے اس منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مالی مشکلات کا سامنا نہیں رہا، وہاں حکومت نے اپنی ذمہ داری نبھائی، بہت پیسہ خرچ کیا، ہاکی لیگ کروائی، یہ آسان کام نہیں ہے۔ صرف ایف آئی ایچ کے پروجیکٹ سے مسائل حل نہیں ہوتے وہ ایک پہلو ضرور ہے لیکن اس کے ساتھ بہت ساری چیزیں جڑی ہوئی ہیں اگر آپ اُن پر عمل نہیں کرتے ہیں تو پھر منزل کا حصول مشکل ہوتا ہے۔ نریندر بترا نے پیشہ وارانہ انداز میں اس پروجیکٹ پر کام کیا اور آج انڈیا کی ہاکی آپ سب کے سامنے ہے۔ پاکستان ہاکی کو بہتر بنانے کے لیے بھی ہمیں پیشہ وارانہ انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ہمارے پاس ایک بہترین فنانشل ماڈل ہونا ضروری ہے۔ اگر ہمارے پاس اچھا فنانشل ماڈل نہیں ہے تو پھر ہم صرف وقت ضائع کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کی عادت اپنانا ہو گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں مستقل مزاجی اختیار کرنا ہو گی۔ پاکستان ہاکی کو بہتر بنانے کے لیے فکری سوچ اور میرٹ پر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ 
پاکستان میں بدقسمتی سے شخصیات ہر وقت زیربحث رہتی ہیں ہر وقت لوگوں پر بات ہوتی ہے بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ میں کہیں پالیسی کے حوالے سے بات سُن رہا ہوں یا لوگ پالیسیز پر بحث کرتے ہوئے نظر آئیں۔ اور یہی صورتحال ہاکی میں بھی نظر آتی ہے مجموعی طور پر ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں اپنی سوچ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں دعائیں ضرور کرنی چاہئیں لیکن اُس کے ساتھ ساتھ مقصد کے حصول اور ہدف کے تعاقب میں بھرپور محنت، لگن، ایمانداری اور وسائل کا استعمال بھی اُتنا ہی ضروری ہے۔ 
میں نے جب چین میں کام شروع کیا تو  50 سے زیادہ لڑکیاں تھیں پاکستان کی ہاکی کوئی بہت زیادہ ٹریک سے اُتری نہیں ہوئی ہم آج تک یہی بات کر رہے ہیں کہ سکول ہاکی ٹھیک نہ ہوئی تو ہم ترقی نہیں کر سکتے۔ سکول ہاکی تو آپ کو معاشرے میں صحتمندانہ سرگرمیوں کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے لیکن ہاکی میں ایک ہائی پرفارمنس ماڈل ہے۔ اگر آپ کے پاس 70 یا 80 کھلاڑی ہائی پرفارمنس سینٹر میں موجود ہیں تو آپ عالمی ایونٹ جیتنے کے اُمیدوار ہیں لیکن اس کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کہنا مناسب نہیں کہ اگر سکول ہاکی ٹھیک نہ ہوئی تو ہماری قومی ٹیم بھی ٹھیک نہیں ہو سکتی۔ 
میں نے پوری دنیا میں بھلے وہ سینٹرل امریکہ ہو، پیراگوئے ، یورا گوئے، پانامہ، ہنڈرس، سری لنکا ، کمبوڈیا، یورپ ، افریقہ ہر جگہ آواز ایک ہی ہے کہ اُن کے پاس پیاس ہے وسائل نہیں ہیں۔ ہمیں اُن تمام ممالک جہاں جہاں ہاکی کا شوق پایا جاتا ہے وہاں اپنا کردار ادا کرنا ہے اور ہاکی میں ترقی پذیر ممالک کو بھی وہی سہولیات اور وسائل فراہم کرنے کا خواہش مند ہوں جو دنیا کی بہترین ٹیموں کے پاس ہیں۔ میرے پاس بہت زیادہ وقت نہیں ہے اور نہ ہی میں چیزوں کو لٹکانے یا میز پر رکھنے کا عادی ہوں۔ یہ کھیل کی چیزیں ہیں اور کھیل میدان میں کھیلا جاتا ہے اور کھیل سے جڑے تمام معاملات جتنا جلد کھیل کے میدان میں ہوتے نظر آئیں اُتنا ہی کھیل اور کھلاڑیوں کے لیے بہتر ہے۔ یہی میرا مقصد ہے اور اس کے لیے شروع دن سے آج تک محنت کر رہا ہوں۔ انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کے صدر کی حیثیت سے بھی یہی کوشش ہو گی کہ ہر وہ کام کیا جائے جس سے دُنیا بھر میں کھیل ترقی کرے اور کھیلنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو اور دیکھنے والے ہر وقت ہاکی میچز کے منتظر ہوں۔ 

epaper

ای پیپر-دی نیشن