• news

دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا


شعروشاعری او رشعرا کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ جب تک دل پرچوٹ نہیں لگتی طبع رواں نہیں ہوتی۔دل پرچوٹ لگنے کو اکثر شعرا مطلع یا مقطع میں استعمال کرتے ہیں۔ جوش ملیح آبادی کاایک خوبصورت شعر ہے کہ
دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا 
جب چلی سرد ہوا میں نے تجھے یاد کیا 
جوش ملیح آبادی کا نام شبیر حسن خاںتھا۔وہ پہلے شبیر تخلص کرتے تھے پھر انہوں نے جوش اختیار کیا۔ 1894 میں ملیح آباد میں پیدا ہونے کی وجہ سے جوش ملیح آبادی کو نام کے ساتھ لگالیا۔ ان کے والد بشیر احمد خاں بشیر، دادا محمد احمد خاں احمد اور پڑدادا فقیر محمد خاں گویا معروف شاعر تھے۔اسی وجہ سے کہاجاتا ہے کہ شاعری ان کے خون میں شامل تھی اور وہ والد،داد، پڑدادا کے شعروشاعری میں وارث تھے۔جاگیردار ہونے کی وجہ سے ان کے گھر میں ہر طرح کا عیش و آرام میسر تھا۔ شعر کہنے لگے توانہوں نے عزیز لکھنوی سے اصلاح لی اور غلطیاں درست کرانے لگے۔ انہوں نے شروع میں دارالترجمہ عثمانیہ میں ملازمت اختیار کی۔ کچھ مدت وہاں گزارنے کے بعد دہلی آئے اور رسالہ ”کلیم“ جاری کیا۔ آل انڈیا ریڈیو سے بھی ان کا تعلق رہا۔ سرکاری رسالہ ’آج کل‘ کے مدیر مقرر ہوئے۔ اسی رسالہ سے وابستہ تھے کہ پاکستان چلے گئے۔ وہاں لغت سازی میں مصروف رہے۔ وہیں 1982ءمیں وفات پائی۔انہوں نے بچپن اور کم سنی کے رونے کے بارے میں ایک خوبصورت شعر کہا تھا کہ:
میرے رونے کا جس میں قصہ ہے 
عمر کا بہترین حصہ ہے 
انہوں نے مسکراہٹ اور پھولوں کے کھلنے پر خوبصورت شعرکہا
تبسم کی سزا کتنی کڑی ہے 
گلوں کو کھل کے مرجھانا پڑا ہے 
ایک او رموقع پرکیا خوب کہا 
نقش خیال دل سے مٹایا نہیں ہنوز 
بے درد میں نے تجھ کو بھلایا نہیں ہنوز 
جوش نے مناظر فطرت پر جس کثرت سے نظمیں لکھیں۔ صبح و شام، برسات کی بہار، گھٹا، بدلی کا چاند، ساون کا مہینہ، گنگا کا گھاٹ، یہ تمام مناظر جوش کی نظموں میں رقصاں وجولاں ہیں۔ بدلی کا چاند، البیلی صبح، تاجدار صبح، آبشار نغمہ، برسات کی چاندنی وہ زندہ جاوید نظمیں ہیں جنکے سبب جوش فطرت شاعر کہلائے۔
فردوس بنائے ہوئے ساون کے مہینے 
اک گل رخ و نسریں بدن و سرو سہی نے 
ماتھے پہ ادھر کاکل ولیدہ کی لہریں 
گردوں پہ ادھر ابر خراماں کے سفینے 
ایک اور غزل کے چند اشعار ہیں کہ
کیا روح فزا جلوہ رخسار سحر ہے 
کشمیر دل زار ہے فردوس نظر ہے 
ہر پھول کا چہرہ عرق حسن سے تر ہے 
ہر چیز میں اک بات ہے ہر شے میں اثر ہے 
انہوں نے وطن کے بارے میں چند اشعار کئے ان کی غزل سے چند اشعار ہیں کہ
اے وطن پاک وطن روح روان احرار 
اے کہ ذروں میں ترے بوئے چمن رنگ بہار 
اے کہ خوابیدہ تری خاک میں شاہانہ وقار 
اے کہ ہر خار ترا رو کش صد روئے نگار 
کمال شعر کہا کہ
اس کا رونا نہیں کیوں تم نے کیا دل برباد 
اس کا غم ہے کہ بہت دیر میں برباد کیا 
اتنا مانوس ہوں فطرت سے کلی جب چٹکی 
جھک کے میں نے یہ کہا مجھ سے کچھ ارشاد کیا 
جوش کی شاعری میں سب سے زیادہ قابل توجہ چیز ہے، دلکش اور جاندار زبان!۔جوش کو زبان پر مکمل عبور حاصل ہے۔ انہیں بجا طور پر لفظوں کا بادشاہ کہا جاتا تھا۔
اب دل کا سفینہ کیا ابھرے طوفاں کی ہوائیں ساکن ہیں 
اب بحر سے کشتی کیا کھیلے موجوں میں کوئی گرداب نہیں 
ان کو ا شاعر انقلاب کہا جاتا تھا کیونکہ انقلاب ا ن کے مزاج اور الفاظ میں تھا
کام ہے میرا تغیر نام ہے میرا شباب
میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب
جوش ملیح آبادی کو جو بات پسند نہیں آتی تھی وہ اسے رد کر دیتے تھے اور ذرا برابر بھی تاخیر نہیں کرتے تھے۔ طبیعت میں ولولہ تھا اور فطرت سے گہرا لگاو¿ہونے کے باعث جوش نے اپنے اشعار کے ذریعے جو عکاسی کی ہے اسے پڑھ کر قاری پر ایسا اثر قائم ہوتا ہے جیسے وہ ان اشعار کے ذریعے فطرت کے مناظر کی تصویر دیکھ رہا ہو
مجھ کو تو ہوش نہیں تم کو خبر ہو شاید 
لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا 

ای پیپر-دی نیشن