• news

پیر،25  ربیع الثانی ھ، 1444، 21 نومبر 2022ء 


گوجرانوالہ میں بہادر طالبہ نے ڈاکوئوں سے گن چھین لی 
یہ ہوئی ناں بات اسے کہتے ہیں ’’ہمت مرداں مدد خدا‘‘ یہاں جو ہمت اس لڑکی نے دکھائی وہ تو مردوں میں بھی نہیں ہوتی۔ اسلحہ سامنے د یکھ کر اچھے اچھوں کے ہاتھ پیر پھول جاتے ہیں۔ سلام ہے گوجرانوالہ کی اس بیٹی پر جس نے ثابت کر دیا کہ صرف خوف انسان کو بزدل بنا دیتا ہے۔ اگر ہم خوف پر قابو پا لیں تو کوئی بدمعاش غنڈہ ، چوراچکا یا ڈاکو کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ بے شک یہ بد بخت چور اور ڈاکو ہوں یا غنڈے اور بدمعاش یہ خود بزدل ہوتے ہیں ۔ دوسروں پر رعب ڈالنے کے لیے اسلحہ دکھا کر انہیں خوفزدہ کرتے ہیں۔ افسوس اس سارے معاملے میں مقامی انتظامیہ منہ پر کپڑا ڈالے سوئی نظر آتی ہے۔ اگر انتظامیہ بیدار ہو تو کسی بیٹی کو یہ تردد نہ کرنا پڑتا۔ یہ ناکے یہ چیکنگ کس لیے جگہ جگہ ہوتے ہیں۔ ان کے باوجود اگر لوگ اسلحہ لے کر گھومتے پھرتے ہیں شہریوں کو لوٹتے ہیں تو کیا فائدہ ان سب نمائشی اقدامات کا۔ یہ تو گوجرانوالہ کی بسمہ کی دلیری تھی جو اس نے ڈاکوئوں کے پاس اسلحہ دیکھ کر بھی نہیں ڈری اوران سے اُلجھ پڑی اور 
مصالحت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے 
میں سربکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے 
کی عملی تفسیر بن گئی۔ اس میں اس کی جان بھی جا سکتی تھی وہ شدید زخمی بھی ہو سکتی تھی۔ مگر آفرین ہے اس پر وہ ڈٹ گئی اور تن تنہا لڑکی نے دونوں ڈاکوئوں کو پچھاڑ دیا۔ مگر ہماری سب بیٹیاں ایسا نہیں کر سکتیں انہیں سرعام تماشہ بننے کا خوف رہتا ہے۔ ان کی تربیت نے انہیں مردوں کی بالادستی کا سبق پڑھایا ہوتا ہے۔ وہ مردوں سے اُلجھتی نہیں ان کی بہت سی باتیں اوچھی حرکات برداشت کر لیتی ہیں کیونکہ انہیں سکھایا گیا ہوتا ہے کہ وہ لڑکی ہے۔ بہتر ہے کہ تمام گرلز سکولوں میں کالجوں میں لڑکیوں کو اپنی حفاظت کی تربیت دی جائے۔ جوڈو کراٹے میں کم از کم اتنا ماہر بنایا جائے کہ وہ کسی اوچھے کو چور یا ڈاکو کو بروقت بسمہ کی طرح سکھا سکیں۔ ہر سکول کالج میں ایک پیریڈ حفاظتی تربیت کا لازمی ہونا چاہیے۔ 
٭٭٭٭٭
گیس کی قیمت میں اضافہ نہیں کیا جا رہا۔ ترجمان 
گیس اول تو حکومت یہ بتائے کہ دستیاب کہاں کہاں ہے۔ پورے ملک میں سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی ہا ہا کار مچی ہوئی ہے کہ گیس نے بھی بجلی کی طرح آنکھ مچولی شروع کر دی ہے۔ عوام بھی اب حکومتی اداروں اور مقاصد سے بخوبی آگاہ ہو چکے ہیں جو گرمیوں میں جب گیس کا استعمال کم ہوتا ہے۔ بڑی دلیری کے ساتھ گیس کی قیمت میں من مانا اضافہ کرتی ہے تاکہ صارفین کو ز یادہ بوجھ کا احساس نہ ہو اور اس کے ساتھ ساتھ سردیوں میں جب بجلی کی کھپت قدرے کم ہوتی ہے بجلی کی قیمت میں من مانا اضافہ کرتی ہے تاکہ صارفین کو زیادہ بوجھ کا احساس نہ ہو مگر جب موسم بدلتا ہے تو بجلی صارفین گرمیوں میں زیادہ بجلی آنے کا سیاپا کرتے ہیں اور گیس صارفین سردیوں میں بل زیادہ آنے پر واویلا مچاتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں برق گرتی ہے تو بے چارے صارفین پر۔ حکومت کی تو دونوں صورتوں میں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہوتا ہے۔ اب حکومت کی طرف سے اعلان ہوا ہے کہ گیس کی قیمت نہیں بڑھائی جا رہی تو یہ خبر بھی لوگوں نے پڑھی اور سُنی ہو گی کہ عالمی منڈی میں گیس اور تیل کی قیمت میں کمی واقعہ ہوئی ہے۔ اس کے ردعمل میں تو ہونا یہ چاہیے کہ پاکستان میں بھی پٹرول اور گیس سستا ہوتا مگر افسوس ایسا کچھ نہیں ۔ہو رہا عالمی منڈی میں قیمت میں کمی کے باوجود پٹرول کے پرانے مہنگے نرخ برقرار ہیں کچھ نہیں تو کم از کم 5 روپے کی ہی رعایت مل جاتی تو لوگ خوش ہو جاتے مگر لگتا ہے حکمرانوں کو لوگوں کی خوشی سے کوئی سروکار نہیں۔ شاید انہوں نے طے کر لیا ہے کہ آنے والے الیکشن میں انہوں نے جب ہارنا ہی ہے تو عوام کو ریلیف کیوں دیں۔ 
٭٭٭٭٭
مجھے انصاف امریکہ برطانیہ یا امارات میں ملے گا۔ عمران خان 
اگر ایسی بات ہے تو پھر انہوں نے ملکی سیاست میں معاشرے میں گلی کوچوں میں یہ ہنگامہ کیوں برپا کیا ہوا ہے۔ کبھی ریلی اور کبھی دھرنے کے نام پر یہ ہلہ گلہ کیوں مچایا ہوا ہے۔ ایسی باتوں سے ملک کے اداروں کی بدنامی ہوتی ہے۔ جگ ہنسائی ہوتی ہے۔ جب ایک سابق وزیر اعظم اور ملک کا مقبول رہنما اپنے ہی ملک کے بارے میں ایسی باتیں کرے گا تو آل انڈیا ریڈیو، آکاش وانی، زی نیوز اور بھارت کے دیگر درجنوں ادارے اور اخبارات تو اس پر خصوصی پروگرام کریں گے پاکستان کی خوب بھد اڑائیں گے۔ کیا اس بات سے عمران خان بے خبر ہیں کہ ایسے بیانات سے کون خوش ہوتا ہے۔ سیاستدان کو وہ بھی قومی سطح کے ایک بڑے سیاستدان کو جذبات سے ہٹ کر بیان دینا ہوتا ہے تاکہ کسی طرف سے اس پر اس کے بیان پر انگلی نہ اٹھے۔ ایک طرف خود عمران خان امریکہ کے لتے لیتے دکھائی دیتے ہیں ابھی تک چاہتے ہوئے یانہ چاہتے ہوئے ان کی ہر تقریر کی تان امریکی سازش یا مداخلت پر ہی ٹوٹتی ہے۔ اس کے باوجود وہ سب کچھ بھلا کر اس سے اچھے تعلقات کے خواہاں بھی رہتے ہیں۔ اب تو اپنے کو انصاف دلانے کے لیے وہ امریکہ کو ہی ترجیح دے رہے ہیں۔ یہ کتنی عجیب بات ہے۔ ایک طرف آپ جن کی غلامی سے نکلنا چاہتے ہیں دوسری طرف انہی سے انصاف کی توقع بھی رکھتے ہیں غالب نے کیا خوب کہا تھا 
جب توقع ہی اٹھ گئی غالب 
کیوں کسی سے گلہ کرے کوئی 
اپنے اداروں کی یوں تذلیل کوئی نہیں کرتا۔ انہی اداروں نے عمران خان کو اتنی آزادی اور رعایتیں دی ہوئی ہیں کہ ملک میں ان کے خلاف جو جی میں آئے کہتے ہیں انہیںبرے ناموں سے پکارتے ہیں پھر بھی انصاف کے لیے دوسروں کی طرف دیکھتے ہیں وہ بھی ان کی طرف جنہیں عوام کے سامنے اپنا دشمن گردانتے ہیں ۔
٭٭٭٭٭
صبح شام دال ملنے پر پنجاب پولیس اہلکاروں کی راولپنڈی میں دہائی 
پنجاب پولیس کے جن اہلکاروں کو لانگ مارچ کے سلسلے میں راولپنڈی میں رکھا گیا ہے۔ان کی صبح شام دال وہ بھی پتلی بے ذائقہ ملنے پر احتجاج کرنے کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں یہ اہلکار صبح دال اے شام وی دال اے کا کورس گاتے ہوئے احتجاج کرتے دکھائے گئے ہیں اوپر سے روٹی بھی پتلی چپاتی جیسی ہے۔ اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ہمیں تو اس موقع کے لحاظ سے طاقتور طاقتور سے غذائیں دینی چاہئیں مگر ہم یہ باسی روٹیاں اور پانی جیسی دال کھائیں گے تو مقابلہ کیسے کریں گے۔ حالانکہ انہیں ایسے حالات میں تو دال روٹی کھائو پر بھوکے گن گائو والا کورس گانا چاہیے تھا۔ اب ان کی اس دہائی کے بعد سی پی او نے ایکشن لیا ہے ، اطلاعات کے مطابق سی پی او نے کہا ہے کہ اب وہ پولیس اہلکاروں کو دئیے جانے والا کھانا پہلے خود چیک کریں گے۔ اُمید ہے اس کے بعد ان ہزاروں پولیس اہلکاروں کی جان دال سے چھوٹ جائے گی۔ ویسے آپس کی بات ہے شاید ہمارے پولیس کے جوان جانتے نہیں کہ آج کل دال بھی سونے کے بھائو بکتی ہے۔ مگر سب کی نہیں اکثریت کی بات کرتے ہیں، وردی کے زور پر رعایتی نرخوں پر سامان لینے کی عادت ہو انہیں کیا معلوم کہ ہمارے کروڑوں شہری اس پانی جیسی پتلی دال کے لیے بھی ترستے ہیں۔ انہیں باسی چپاتی اور پانی جیسے دال بھی اگر دو وقت مل جائے تو وہ شکر ادا کرتے پھریں۔ مگر کیا کریں عوام بے چارے ٹھہرے سفید پوش وہ بھلا وردی پوشوں جیسی رعایتوں کا تصور بھی کیسے کر سکتے ہیں۔ 
٭٭٭٭٭

ای پیپر-دی نیشن