موسمیاتی تبدیلیاں: متاثرہ ترقی پذیر ممالک کے لیے فنڈ قائم
موسمیاتی تبدیلیاں دنیا کو بہت تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں۔ ترقی پذیر ممالک ان تبدیلیوں سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں کیونکہ ان کے پاس ان تبدیلیوں سے نمٹنے یا ان کی وجہ سے ہونے والے نقصان پر قابو پانے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔ پاکستان میں حالیہ طوفانی بارشوں اور ان کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے جو تباہی مچائی وہ سب کے سامنے ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب تھا جس کی وجہ سے، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، سوا تین کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے۔ حکومت اور اقوامِ متحدہ سمیت مختلف بین الاقوامی اداروں نے مذکورہ قدرتی آفت کی وجہ سے ہونے والے نقصان کا تخمینہ تو لگا لیا ہے اور متاثرین کی بحالی کا کام بھی شروع کردیا گیا ہے ، مگر اس میں کتنا وقت لگے گا یہ کوئی نہیں جانتا، اور اس بارے میں بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ بحالی کا عمل مکمل ہونے سے پہلے کوئی اور قدرتی آفت متاثرین کے لیے مزید مسائل کا باعث نہ بن جائے۔
کئی اہم بین الاقوامی ادارے اپنی رپورٹوں میں یہ واضح کرچکے ہیں کہ پاکستان میں قدرتی آفات کا سلسلہ تھمنے والا نہیں اور آنے والے برسوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ حالیہ بارشوں اور سیلاب سے پہلے بھی بین الاقوامی ادارے حکومت کو خبردار کرچکے تھے کہ اس قسم کی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے لیکن حکومت کی طرف سے اس مسئلے کی جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کروڑوں افراد اس قدرتی آفت سے متاثر ہوئے۔ اربوں ڈالرز کا مالی نقصان بھی ہوا جس کا ازالہ کسی بھی صورت ممکن نہیں ہوسکتا کیونکہ پاکستان کی معیشت پہلے ہی ایک ایسی منجدھار میں پھنسی ہوئی ہے جس سے نکلنا ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ اس صورتحال میں صرف ایک خوش آئند بات ہے اور وہ یہ کہ کچھ دوست ممالک اور بین الاقوامی ادارے متاثرین کی بحالی کے لیے پاکستان کی مدد کررہے ہیں۔
مصر کے شہر شرم الشیخ میں اقوامِ متحدہ کے زیر اہتمام موسمیاتی تبدیلیوں اور ان کے اثرات سے متعلق ہونے والی کانفرنس آف دی پارٹیز (کوپ) 27 میں فیصلہ کیا گیا کہ ان تبدیلیوں سے متاثرہ ترقی پذیر ممالک کے نقصان کو پورا کرنے کے لیے فنڈ قائم کیا جائے گا۔ فنڈ قائم کرنے کی منظوری قائم میں دو ہفتے تک جاری رہنے والے مباحثے کے بعد دی گئی۔ اس سلسلے میں ایک معاہدے پر بھی دستخط کیے گئے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کی وفاقی وزیر شیری رحمن نے فنڈ کے قیام کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑا۔ وزیراعظم محمد شہبازشریف کی کوششیں رنگ لے آئی ہیں۔ فنڈ کا قیام موسمیاتی تباہی کا شکار غریب ممالک کے لیے ایک بڑی خوش خبری ہے۔ وزیر اعظم آفس کے میڈیا ونگ کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق، کوپ27 کے موقع پر نئی تاریخ لکھی گئی جس میں سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتریس سمیت عالمی رہنماو¿ں نے اہم کردار ادا کیا۔
وزیراعظم آفس کے اعلامیے میں درست کہا گیا ہے کہ ڈیمیج اینڈ لاس فنڈ کے ذریعے سیلاب سمیت دیگر موسمیاتی نقصانات کا شکار ممالک کو مالی معاونت مل سکے گی اور اس سے پاکستان میں سیلاب متاثرین کی بحالی اور تعمیر نو میں بڑی مدد ملے گی۔ پیرس معاہدہ اور گرین مارشل پلان کے مقابلہ میں کوپ 27نے عملی قدم اٹھا کر تاریخ رقم کی ہے۔ ادھر، شہباز شریف نے بھی سماجی رابطے کے ذریعے ٹوئٹر پر کہا ہے کہ کوپ 27 میں ازالہ جاتی فنڈ کا قیام موسمیاتی انصاف کے ہدف کی طرف پہلا اہم قدم ہے۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ عبوری کمیٹی پر منحصر ہے کہ وہ اس تاریخی ترقی کو کیسے آگے بڑھائے۔ اس فنڈ کے قیام کے سلسلے میں انھوں نے شیری رحمن اور ان کی ٹیم کی کوششوں کی تعریف بھی کی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ فنڈ کب تک قائم ہوتا ہے اور اس کے ذریعے متاثرہ ترقی پذیر ممالک کو کس قسم کی اور کتنی امداد دی جاتی ہے۔
کوپ 27 کے اجلاس کے دوران ہر سال درجہ¿ حرارت میں ہونے والے 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ اضافے اور اس کے تدارک کے لیے اقدامات پر اتفاق رائے پایا گیا۔ اجلاس میں کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے کے عمل کو کم کرنے سمیت موسمی تبدیلی میں کاربن گیسوں کے اخراج کا باعث بننے والے ممالک کے محتاط رویہ نہ اپنانے پر خدشات کا بھی اظہار کیا گیا۔ اتفاقِ رائے اور خدشات کا اظہار اچھی بات ہے لیکن کیا اس سب سے موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والے جانی و مالی نقصان پر قابو پایا جاسکے گا؟ نقصانات کے ازالے کے لیے فنڈ کا قیام یقینا ایک احسن اقدام ہے مگر زیادہ توجہ اس بات پر دی جانی چاہیے کہ موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو کیسے پایا جائے؟ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا محرک بننے والے عوامل میں ترقی پذیر ممالک کا حصہ بہت کم ہے۔ ترقی یافتہ ممالک جس رفتار سے خود کو معاشی، دفاعی اور تزویراتی اعتبار سے مضبوط بنانے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں اس کی وجہ سے دنیا بھر کا موسم بہت بری طرح متاثر ہورہا ہے اور اس کی وجہ سے نہ صرف گلیشیئرز پگھل رہے ہیں بلکہ دیگر قدرتی آفات بھی آرہی ہیں۔ اقوامِ متحدہ اور دیگر اہم بین الاقوامی اداروں کو مل کر کوئی ایسا لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا جس کی مدد سے نقصانات کے اس سلسلے پر قابو پایا جاسکے۔