طالبان کے افغانستان میں 19افراد کو مختلف جرائم پرسرِعام کوڑے
کابل(این این آئی)طالبان کی سپریم کورٹ نے اطلاع دی ہے کہ رواں ماہ افغانستان کے شمال مشرقی صوبہ تخارمیں 19 افراد کو سرعام کوڑے مارے گئے ۔ یہ حکمران گروپ کی جانب سے فوجداری مقدمات پر شریعت (اسلامی قانون)کی سخت تشریح کو لاگو کرنے کی پہلی بڑی علامت ہے۔سپریم کورٹ کے ترجمان مولوی عنایت اللہ نے بتایا کہ مکمل غوروخوض اور سخت شرعی تحقیقات کے بعد ان میں سے ہرفردکو39کوڑوں کی سزا سنائی گئی تھی۔ترجمان کے مطابق ان سزاں پرشمال مشرقی صوبہ تخار میں 11 نومبر کو صوبائی عدالتوں کے حکم پر نماز جمعہ کے بعدعمل درآمد کیا گیا تھا لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان افراد کو کن جرائم کی پاداش میں کوڑے مارنے کی سزا سنائی گئی تھی۔سخت گیرطالبان انتظامیہ کے تحت منظم جسمانی سزا کا یہ پہلا اشارہ ہے لیکن فوری طور پر یہ واضح نہیں ہواکہ آیا اس طرح کی سزائیں ملک بھرمیں دی جائیں گی یا نہیں۔عدالت کے ایک بیان کے مطابق طالبان کے سپریم روحانی پیشوا نے رواں ماہ ججوں سے ملاقات کی تھی اورانھیں ہدایت کی تھی کہ انھیں شرعی قوانین کے مطابق سزائوں پرعمل درآمد کرنا چاہیے۔طالبان نے دو دہائیوں کی شورش کے بعد اگست 2021 میں کابل میں اقتدارسنبھالا تھا لیکن ابھی تک کسی بھی غیر ملکی حکومت نے باضابطہ طور پران کی انتظامیہ کو تسلیم نہیں کیاہے۔مغربی ممالک طالبان پر انسانی حقوق کی پاسداری اور بچیوں کے تعلیمی اداروں کو کھولنے کے مطالبات کررہے ہیں۔یادرہے کہ 1996 سے2001 تک طالبان کے پہلے دورِحکومت میں مجرم قراردیے گئے افراد کو سرِعام کوڑے مارنے اور سنگسار کرنے کے بہت سے واقعات پیش آئے تھے۔ان کی پہلی حکومت کے خاتمے کے بعد اس طرح کی سزئواں پرشاذ ونادرہی عمل درآمد کیا گیا ہے۔اس کے بعدمغرب کی حمایت یافتہ افغان حکومتوں کے ادوار میں افغانستان میں صرف سزائے موت قانونی رہی تھی اور اس پر عمل درآمد کیا جاتا رہا تھا لیکن کوڑے مارنے یا کسی کو سنگسار کرنے کے واقعات کی اطلاعات سامنے نہیں آئی تھیں۔