آرمی چیف کے تقرر کے پراسس کا آغاز۔ عمران خان اب بلیم گیم کا سلسلہ ترک کر دیں
وزارت دفاع نے چیف آف آرمی سٹاف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے تقرر کے لئے جی ایچ کیو سے سینئر افسران کے ناموں کی سمری مانگ لی ہے۔ ذرائع کے مطابق سینئر افسران کے نام اگلے 24 گھنٹوں میں وزارت دفاع کو ملنے کا امکان ہے۔ اس سلسلہ میں وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بتایا کہ وزارت دفاع کو وزیر اعظم شہباز شریف کا خط موصول ہو گیا ہے جس کے بارے میں جی ایچ کیو کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔
ان کے بقول ایک سے تین روز تک مشاورت کا سارا مرحلہ مکمل ہو جائے گا اور سارا ہیجان ختم ہو جائے گا۔ اس کے بعد عمران خان سے بھی دو دو ہاتھ کر لیں گے۔ انہوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج ایک ادارہ 75 سال بعد برملا کہہ رہا ہے کہ ہم نیوٹرل ہیں مگر عمران خان نے لفظ نیوٹرل کو طعنہ بنا دیا ہے۔ ان کے بقول آرمی چیف کے تقرر کے معاملہ پر ایک ہیجان برپا کیا گیا، عمران خان اقتدار سے جدائی میں پاگل ہو گئے ہیں۔ وہ اپنے حربوں سے اداروں کے احترام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ وہ اداروں پر حملہ نہ کریں۔ انہوں نے اپنے بندوں اور ایم این ایز کو چور چور کہنا سکھایا۔ ان کے ہزار پندرہ سو ورکر جی ٹی روڈ پر خوار ہو رہے ہیں جبکہ وہ خود آن لائن خطاب کرتے ہیں۔ اب انہوں نے اپنے امریکی مداخلت کے بیانیہ میں سے اسٹیبلشمنٹ کو بری الذمہ قرار دے دیا ہے مگراب کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ان کے خلاف سازش روک تو سکتی تھی۔ اس طرح وہ اسٹیبلشمنٹ کو ان کا اقتدار بچانے کے لئے دعوت گناہ دے رہے تھے۔
اسی تناظر میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے باور کرایا کہ اسلام آباد میں احتجاج کے لئے عمران خان کی اعلان کردہ -26 نومبر کی تاریخ سے پہلے ہی آ رمی چیف کے تقرر کا فیصلہ ہو چکا ہو گا۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ راولپنڈی میں پی ٹی آئی کی تاریخ کا سب سے چھوٹا اجتماع ہو گا۔ ان کے بقول آرمی چیف کا جب بھی تقرر عمل میں آیا، اس طرح کے حالات کبھی پیدا نہیں ہوئے جو عمران خان نے اپنی بلیم گیم کی سیاست کے ذریعے پیدا کر دئیے ہیں۔ انہوں نے اس تقرر پر تماشہ لگانے کی کوشش کی مگر وہ اس میں ناکام ہوئے۔ عمران خان کا اس عمل کو پوری طاقت سے رد کرنا ضروری تھا ورنہ ہر تین سال بعد لانگ مارچ ہوا کریں گے۔ عمران خان کا بنیادی ایجنڈہ ملک میں افراتفری پھیلانے کا ہے۔ امید ہے ادارہ نیوٹرل رہنے کے فیصلے پر قائم رہے گا۔
ہمارے لئے اس سے بڑا المیہ اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ ملک کی سرحدوں کے تحفظ کے ضامن ادارے کے سربراہ کے لئے جو تقرر آئین کے تقاضوں کے مطابق اور معمول کی کارروائی کے طور پر عمل میں آنا چاہیے جیسا کہ دوسرے ممالک میں ہوتا ہے، اس پر اس جماعت کے لیڈر کی جانب سے بلیم گیم والی انتشار اور افراتفری کی سیاست شروع کر دی گئی جن کی سیاست کا آغاز ہی اس ادارے کی چھتری کے نیچے ہوا تھا۔ عمران خان ماورائے آئین اقدام والے جنرل پرویز مشرف کے صدارتی انتخاب میں ان کے پولنگ ایجنٹ بنے اور ان کے ساتھ اقتدار کے لئے بھائو تائو کرتے رہے جس کا انکشاف خود جنرل مشرف اپنے متعدد انٹرویوز میں کر چکے ہیں۔ وہ بطور اپوزیشن لیڈر اپنے 2014ء کے دھرنے کے دوران اپنے حق میں امپائر کی انگلی اٹھنے کا عندیہ دیتے رہے اور جب وہ 2018ء کے انتخاب کے نتیجہ میں اقتدار میں آئے تو انہوں نے سول اور عسکری قیادتوں کے ایک صفحے پر ہونے کا پراپیگنڈہ کر کے اپوزیشن کو اپنے اقتدار کے محفوظ اور مضبوط ہونے کا عندیہ دیا اور اسے رگڑا دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس طرح انہوں نے عسکری ادارے پر جانبداری کا لیبل لگوانے کی دانستہ سازش کی جس سے ان کے سیاسی مخالفین کو عسکری ادارے کی جانب انگلی اٹھانے کا موقع ملا چنانچہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے حکومت اور اپوزیشن میں شامل قومی سیاسی قائدین کے ساتھ ایک غیر رسمی نشست کا اہتمام کر کے انہیں دوٹوک الفاظ میں باور کرا دیا کہ فوج کا سیاست اور سول معاملات میں کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ وہ اس ادارے کو سیاست میں گھسیٹنے سے گریز کریں اور اپنے معاملات مجاز فورم پر خود طے کریں۔ اس کے باوجود جب عمران خان کے ہاتھوں زچ ہوئی اپوزیشن کی جانب سے ان کے خلاف آئین اور قواعد و ضوابط کے مطابق عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تو انہوں نے جہاں اس تحریک پر ووٹنگ روکنے کے لئے سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور پھر صدر مملکت کو بھی غیر آئینی اقدامات اٹھانے کی راہ پر لگایا وہیں انہوں نے عسکری قیادتوں سے عدم اعتماد کی تحریک ناکام بنانے کے لئے حکومت کی معاونت کے تقاضے بھی شروع کر دئیے اور جب عسکری قیادت کی جانب سے پھر دوٹوک الفاظ میں باور کرایا گیا کہ آئین کے تقاضوں کے تحت یہ ادارہ نیوٹرل ہے جس نے دفاع وطن کی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ہی ادا کرنی ہیں تو عمران خان نے عسکری قیادت کو جانوروں کے نام سے مخاطب کر کے تضحیک کا نشانہ بنانا شروع کر دیا اور پھر اپنے اقتدار کے خاتمہ کے حوالے سے بیرونی سازش کا بیانیہ تراش کر عسکری قیادت کو بھی اس سازش میں شریک ہونے کا موردالزام ٹھہرانا شروع کر دیا۔
وہ محض آرمی چیف کے تقرر کے ایشو پر اتہام تراشی کی سیاست کے ذریعے چائے کے کپ میں طوفان اٹھانے کی کوشش کرتے رہے اور جب ان کی دال نہ گلی تو انہوں نے راولپنڈی کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کر دیا، اس لانگ مارچ کے دوران ان کے کنٹینر پر فائرنگ کا واقعہ رونما ہوا جس میں وہ اپنے ساتھیوں سمیت زخمی بھی ہوئے تو انہوں نے وزیر اعظم اور وفاقی وزیر داخلہ کے علاوہ ایک اعلیٰ فوجی افسر کا نام لے کر ان پر اس وقوعہ کا ملبہ ڈالنے اور انہیں ایف آئی آر میں نامزد کرانے کی کوششیں شروع کر دیں جو درحقیقت نیوٹرل ادارے کو سیاست کی جانب دھکیلنے اور ان کے ذریعے اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کی سازش تھی۔ وہ اس حوالے سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ان کے منصب پر مزید توسیع دینے کی پیش کش بھی کرتے رہے جبکہ آرمی چیف نے دوٹوک الفاظ میں مزید توسیع نہ لینے اور مقررہ تاریخ کو سبکدوش ہونے کا اعلان کر کے فوجی یونٹوں کے الوداعی دوروں کا بھی آغاز کر دیا جو ابھی جاری ہیں اور آرمی چیف گزشتہ روز ائرچیف اور پاک بحریہ کے سربراہ سے بھی الوداعی ملاقاتیں کی ہیں جبکہ انہوں نے کور ہیڈ کوارٹر راولپنڈی کا بھی دورہ کیا ہے جو اس بات کا واضح عندیہ ہے کہ ان کی سبکدوشی پر -29 نومبر کو نئے آرمی چیف کا تقرر عمل میں آ جائے گا۔
اس کے لئے وزیر اعظم شہباز شریف نے پہلے ہی واضح طور پر عندیہ دے دیا ہے کہ سنیارٹی لسٹ میں جو افسر سب سے سینئر ہو گا اس کا بطور آرمی چیف تقرر عمل میں آ جائے گا۔ اس کے لئے اب وزیر اعظم کے بھجوائے مراسلہ کی بنیاد پر وزارت دفاع کی جانب متعلقہ پراسس شروع کر دیا گیا اور وزیر دفاع کے بقول -26 نومبر تک نئے آرمی چیف کا تقرر عمل میں آ جائے گا مگر عمران خان مسلسل اپنی افراتفری کی سیاست جمائے ہوئے ہیں جو ملک میں سیاسی عدم استحکام کو راستہ دے کر جمہوریت کی گاڑی ٹریک سے اتارنے پر بھی منتج ہو سکتی ہے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق عمران خان کا درحقیقت یہی ایجنڈہ ہے کیونکہ اقتدار سے محرومی کے بعد وہ اپنے سیاسی مخالفین کو بھی اقتدار پر فائز نہیں دیکھنا چاہتے۔ وہ ایک جانب حکومت سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کر رہے ہیں اور دوسری جانب یہ اعلان بھی کر رہے ہیں کہ حکومت کو ہر صورت نئے انتخابات کی جانب جانا ہو گا۔ یہ سیاست درحقیقت اسمبلی کی آئینی مدت پوری نہ ہونے دینے کی سیاست ہے۔ ا گر وہ اپنی جارحانہ اور غیر منطقی سیاست کے ذریعے ملک میں افراتفری کی فضا برقرار رکھیں گے تو اس سے جمہوری اداروں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہی لاحق ہو گا جبکہ جمہوریت کے استحکام کی اس سے بہتر فضا اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ اس وقت عساکر پاکستان آئین و قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی عملداری کے عہد پر کاربند ہو چکی ہیں جبکہ وزیر اعظم آرمی چیف کے تقرر کے صوابدیدی آئینی اختیار کے باوجود سنیارٹی لسٹ میں شامل سینئر موسٹ افسر کے بطور آرمی چیف تقرر کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اس تناظر میں بہتر یہی ہے کہ عمران خان بھی اپنی محاذ آرائی والی غیر منطقی سیاست ترک کر کے ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی عملداری کو موقع فراہم کریں تاکہ سسٹم خوش اسلوبی سے چلتا رہے۔ وہ اپنی مفاداتی سیاست پر کاربند رہیں گے تو اقتدار کی منزل ان سے بتدریج دور ہوتی چلی جائے گی۔