بچوں کے ادب پر پہلی سرکاری اہل قلم کانفرنس(۳)
کہتے رہنے سے فرق یہ پڑا کہ مختلف ادبی حلقوں میں بچوں کا ادب بھی زیر بحث آنے لگا۔ ادبی کانفرنسوں میں بھی بچوں کے ادب پر بات ہونے لگی۔ کراچی آرٹس کونسل میں ہر سال عالمی ادبی کانفرنس منعقد ہوتی تھی اس میں بھی بچوں کے ادب کا سیشن ہونا شروع ہوا۔ حلقہ ارباب ذوق نے بھی بچوں کے ادب پر ایک سیشن کروایا۔ اسی طرح ادارہ فروغ قومی زبان اسلام آباد نے ایک روزہ کانفرنس منعقد کی۔ ابھی حال ہی میں سندھی لینگوئج اتھارٹی کے تحت بھی بچوں کے ادب پر کانفرنس منعقد کی گئی ہے۔ یوں گزشتہ کاوشوں کے نتیجے میں یہ سلسلہ چل نکلا ہے اور اداروں کو بچوں کے ادب کی اہمیت کا احساس ہونا شروع ہو گیا ہے۔ امید ہے کہ اس سلسلے کو مزید فروغ ملے گا۔ ہم ایک عرصے تک سرکاری سطح پر بچوں کے ادیبوں کے لیے بھی ایوارڈز کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ ہم نے ہر سال بچوں کے لیے بہترین کتابوں پر ایک لاکھ روپے مالیت کے ’’تسنیم جعفری ایوارڈ‘‘دینے شروع کیے۔ پاکستان میں غیر سرکاری سطح پر سب سے بڑے ادبی ایوارڈ’’یو بی ایل لٹریری ایوارڈ‘‘ دیے جاتے ہیں۔ یہ ایوارڈز اب بچوں کے ادب پر بھی دیے جارہے ہیں۔ حال ہی میں اکادمی ادبیات پاکستان کی کانفرنس میں قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن کے مشیر برائے وزیر اعظم انجینئر امیر مقام نے بچوں کے ادب پر دو ایوارڈز دینے کا اعلان کر کے ہمارا درینہ مطالبہ تسلیم کیا ہے۔ دو ایوارڈز بچوں کو بھی کتابیں لکھنے پر دیے جائیں گے۔ اب ہمارا مطالبہ سول ایوارڈز کے حوالے سے رہ گیا ہے کہ ہر سال ہر شعبے کے نمایاں افراد کو صدارتی ایوارڈز دیے جاتے ہیں تو اس میں بچوں کے ادب کا شعبہ بھی شامل کیا جائے اور بچوں کے ادیبوں کو سول ایوارڈز دیے جائیں۔
بات کا آغاز کیا تھا پاکستان میں بچوں کے ادب پر پہلی سرکاری ادبی کانفرنس کے انعقاد سے ۔ تو یہ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہی نہیں پوری باد نسیم تھی جس نے ملک بھر میں بچوں کے لیے ادب تخلیق کرنے والے ادیبوں کو سرشار کر دیا ہے۔ 31اکتوبرسے2نومبر تک جاری رہنے والی اسی تین روزہ کانفرنس میں بچوں کے ادیبوں کو وہ مقام سہولیات اور عزت و احترام دیا گیا جو بڑوں کے لیے ادب تخلیق کرنے والے ادیبوں کو دیاجاتا ہے۔ دور دراز سے آنے والوں کو ہوائی جہاز کا دو طرفہ ٹکٹ دیگر کو کرایہ آمدورفت، اچھے ہوٹلوں میں رہائش کے علاوہ بچوں کے ادب کی مختلف اصناف اور جہتوں پر مقالے پڑھنے کا موقع بھی فراہم کیا گیا۔ یوں تقریباً ڈیڑھ سو مقالے پیش کیے گئے جس کو کتابی شکل میں شائع کیا جائے گا جو کہ اہم دستاویز بنے گی۔اس کے علاوہ کانفرنس میں پیش کیے جانے والے مطالبات و سفارشات کوحکومت کے اعلیٰ حکام تک پہنچایا جائے گا جس سے بچوں کے ادب کی بہتری اور ادیبوں کی حوصلہ افزائی کے کئی امکانات روشن ہوں گے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر یوسف خشک نے اس کانفرنس کے انعقاد کے لیے بھر پور کوششیں کیں۔ مئی میں جب یہ کانفرنس ہونا تھی تو پی ٹی آئی کے دھرنے کی وجہ سے ملتوی کرنا پڑی تھی۔ اس بار بھی جب کانفرنس کی تاریخوں کا اعلان کیا گیاتو پھر لانگ مارچ شروع ہو گیا لیکن اکادمی کی انتظامیہ نے ہمت نہیں ہاری اور اس بار کانفرنس منعقد کر ہی ڈالی۔ کانفرنس میں دیگر ممالک کے ادیبوں نے بھی شرکت کی۔ ڈاکٹر یوسف خشک کے ہمراہ ان کی ٹیم کے ممبران اختر رضا سلیمی، میر نواز سولنگی، محمد ریاض عادل، عاصم بٹ، فضہ گل، محمد سعید اور دیگر ہمہ وقت مصروف رہے۔
افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی مشیر وزیر اعظم برائے سیاسی و عوامی امور، قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن انجینئر امیر مقام نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں تمام اہل قلم کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدیدکہتا ہوں۔ یہ ایک یادگار تقریب ہے جس میں پاکستان اور مختلف ممالک سے بچوں کے ادب سے وابستہ سکالرز کی اتنی بڑی تعداد کو اکٹھا دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ اکادمی کے تحت بچوں کے ادب پر ہر سال کانفرنس منعقد کی جائے گی۔ بچوں کا ادب تخلیق کرنے والے دو ادیبوں اور کتابیں لکھنے والے دو بچوں کو بھی ہر سال ایوارڈز دیے جائیں گے۔ ادیبوں سے میری گزارش ہے کہ ملک و قوم کی خاطر بچوں کا ادب تخلیق کرنے کی روایت کو فروغ دیں۔ ہم اپنے بچوں کے اخلاق و کردار کی آج حفاظت کریں گے تو کل یہ پوری قوم کے کردار کی حفاظت کا فریضہ انجام دیں گے۔ بچوں کا ادب تخلیق کرتے ہوئے اسلام کے اصولوں اور اپنی مشرقی اعلیٰ انسانی اقدار و روایات کو ملحوظ خاطر رکھیں۔وفاقی سیکرٹری قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن فارینہ مظہر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کی یہ کانفرنس اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ حکومت قوم کی تعمیروترقی میں ادب خاص طور پر بچوں کے ادب کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ ہے۔ بچے کسی بھی قوم کا سرمایہ اور مستقبل ہوتے ہیں۔ ان کی تعلیم اور تربیت کی ذمہ داری قوم کو نبھانا ہوتی ہے اور آپ کی موجودگی اور آپ کی تخلیقات اور آپ کی یہاں موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ اس ذمہ داری سے بخوبی آگاہ ہیں جس پر میں آپ کو مبارکباد پیش کرتی ہوں۔
چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان ڈاکٹریوسف خشک نے تمام ادیبوں کو خوش آمدید کہا۔ ادبی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے انجینئر امیر مقام ، فارینہ مظہر اور ڈویژن کے تعاون کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ بچوں کے ادب کو فروغ دینا بھی ہمارے دائرہ کار میں شامل ہے۔ ہم نے سہ ماہی’’ادبیات اطفال‘‘ کے چار خصوصی شمارے شائع کیے ہیں اور پہلی سرکاری تین روزہ عالمی کانفرنس’’بچوں کا ادب، ماضی، حال اور مستقبل‘‘ کا انعقاد کیا ہے۔ بچوں کے ادب کے فروغ اور ادیبوں کی حوصلہ افزائی کا سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ افتتاحی اور اختتامی تقریبات میں سینٹر عرفان صدیقی، محمود شام، امجد اسلام امجد اور اصغر ندیم سید نے بھی خطاب کیا۔ مقررین نے نئی نسل کا کتاب سے رشتہ جوڑنے کی ضرورت پر زور دیا۔راقم نے ’’بچوں کے ادب اور ادیبوں کے مسائل اور ان کا حل‘‘ کے موضوع پر مقالہ پیش کیا اور بچوں کے ادب کے حوالے سے ٹھوس تجاویز پیش کیں۔ اس کانفرنس نے ملک بھر کے ادیبوں کو مل بیٹھنے، ایک دوسرے کے ادبی کام اور نظریات کو سمجھنے کا موقع فراہم کیا۔ کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر ڈاکٹر یوسف خشک اور ان کی پوری ٹیم کو مبارکباد۔ اُ مید ہے کہ یہ سلسلہ ترجیحی بنیادوں پر جاری رہے گا۔
(ختم شد)