قلم دوست
ادبی تنظیم ’’قلم دوست‘‘ کا چوتھا یوم تاسیس 17نومبر کو برٹن انٹرنیشنل المقیت کیمپس میں جوش و خروش کے ساتھ چیئرمین ایثار رانا اور دیگر اراکین کی سرپرستی میں منایا گیا۔ صدر اختر سندھو نے استقبالیہ کیا۔ راقمہ نے چارسالہ کارکردگی کی رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا کہ مختلف یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز سے ملاقاتیں ،تعلیمی نظام پر سَیر حاصل گفتگو ، سیاسی تجزیے، مختلف سیاستدانوں کے ساتھ وطن کی صورتحال پر مفصل بات چیت،آن لائن سیمینارز کئے۔ جشن آزادی پہ ایک بھرپور اوربڑے پیمانے پہ مشاعرے کا انعقاد کیاگیا جس میں ملک کے نامور شعراء نے شرکت کی۔ اس تنظیم کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ ہر تقریب، ملاقاتوں اور سیمینارز کے بعد اس کے کالم نگار معروف اخبارات میں کالم لکھتے ہیں، اس تنظیم کی حکمت عملی میں آپس میں جڑے رہنا اور ہر دوسرے شخص کی رائے کا احترام کرنا ہے۔
30اکتوبر2018ء میں قلم دوست کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ وہ دور تھا جب لاہورکی فضا رنگا رنگ تنظیموں اور ادبی حلقوں کی دوڑ میں دھندلی پڑچکی تھی۔ کئی تنظیمیں عہدوں کے حصول کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی تھی۔ ایسے میںایثار رانا، راقمہ ،عنابغ علی، اسلم بھٹی اور ناصف اعوان نے قلم اور ادب سے وابستہ دانشوروں کی ایسی نرسری قائم کی جہاں ادب کو ترویج اور سچ کو بیان اوراظہار کوعام کیاجاسکے۔ ادب واحترام کی فضاکوتنظیم کے حوالے سے فروغ دینے کیلئے کئی اتار چڑھائو سے گزرنے کے بعد آج یہ تنظیم پورے قد کے ساتھ کھڑی ہے، اس کی ایک اور بڑی کامیابی شہدائے پاکستان کانفرنس تھی جس میں ملک بھر سے شہداء کے رشتہ داروں نے اورحساس اداروں کے اعلیٰ عہدیداروں نے پرجوش شرکت کی۔
جب خیالات کو درکار فصاحت وبلاغت کے ساتھ ادا کرنے تحریر کرنے والا فرد عام آدمی نہ رہ جائے تو ادب پیدا ہوتاہے بات کرنا احساسات کا اظہار کرنا معاشرے کی ناانصافیوں، عدل، ظلم وستم، بے راہ روی، تعلیمی پسماندگی اور انسان و وطن سے جڑے ہر صحیح اور غلط معاملات پہ بات کرنا لکھنا اورپھر اس پر ڈٹے رہنا ہی قلم اور ادب سے سچا رشتہ نبھانے کے مترادف ہے، بات کرنا جبلت بھی ہے، عادت بھی فطرت بھی، مجبوری بھی اور ضرورت بھی، اس لئے گفتگو کرتے رہنے سے بہت سے معاملات سلجھنے لگتے ہیں، ہمارے معاشرے میں ادبی اکائیاں بڑی تعداد میں وجود میں آتی ہیں، جیسے درختوںاور پودوں میں بیج بڑی تعداد میں وجود میں آتے ہیں مگر جیسے ہر بیج پودا نہیں بنتا جب تک اسے مناسب مٹی، پانی دھوپ اور تحفظ نہ ملے، اسی طرح ادبی اکائی فن پارہ نہیں بنتی جب تک اس کو مناسب ماحول، تعلیم وتربیت، تنقید اور ابلاغ نہ ملے، ادب نہ تو خلا میں جنم لیتاہے نہ خلا میں پروان چڑھتاہے، ادب کسی بھی معاشرے کی تہذیب وتمدن کا ایک جزو ہے جیسے جیسے تہذیب وتمدن بدلتاہے ویسے ویسے ادب کی ترویج ہوتی ہے، لیکن یہ ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے کہ تہذیب وتمدن اگر ترقی کی راہ پر ہے تو ترقیِ ادب ہوگی اور اگر تنزلی کا شکارہے تو ادب کا زوال ہوگا۔
قلم دوست کی کارکردگی اور اس کے ہرفرد سے مل کر ایک غزل کے چند اشعار یاد آتے ہیں
تم سے ہر ایک صنف سخن پُربہار تھی
تم سے رخِ جہانِ ادب پر شباب ہے
طاہر سجی ہے اہل وزبان وبیان کی بزم
کردار اس میں جوبھی ہے اجلی کتاب ہے
قلم دوست کی اس تقریب میں امجدفاروق میر،سلیم حسن،توقیرشریفی،پروفیسر ظہیر بدر، رائو خالد، عقیل انجم، خالدبھٹی،عمران امین، اشرف شریف،نعیم نیازی، عارف نوناری، آصف ندیم، امجد فاروق،،عنابغ علی، مذہبی سکالرتنویر قاسم، سچ چینل کے اینکر حنیف رامے نے قلم کی حرمت پہ گفتگو کے ساتھ ساتھ کچھ تجاویز بھی دیں جس میں ایک اچھا لکھاری بننے کیلئے سیمینار کے انعقاد کے بارے میں بات کی گئی،تقریب میں رنگ بھرنے کیلئے آنے والے تمام معزز مہمانوں کو پھول کی کلیاں پیش کی گئیں،تمام مہمانوںنے قلم دوست کے حوالے سے اپنے دلی جذبات واحساسات کا اظہارکیا،جہان پاکستان کی قلمکار عمارہ وحید جو پچھلے نو دس سالوںسے مختلف اخبارات میں کالمز لکھ رہی ہیں اس کے علاوہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ان کی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری ہے انہوںنے خصوصی طور پر شرکت کی۔ اس کے بعد توقیر شریفی کی نظامت میں شاندار مشاعرہ کیاگیا جس میں افضل پارس، ڈاکٹر دانش عزیز، آصف انصاری، شبنم مرزا، عروج زیب اور توقیر شریفی نے ماحول کو اپنی شاعری سے محظوظ کیا، ڈاکٹر دانش نے شہید ارشد شریف پہ غزل پڑھ کے مشاعرہ لوٹ لیا۔
فصیلِ شہر سے باہر بلاکے ماراگیا
سبھی کے سامنے عبرت بنا کے مارا گیا
مرے حریف میرے اپنے لوگ تھے دانش
یہ راز قتل سے پہلے بتاکے ماراگیا
مشاعرے ہماری تہذیب کا حصہ ہیں ان کے ذریعے زبان وادب کی ترویج کے ساتھ ساتھ ہم اپنے مشاہیر کی خدمات کا ذکر کرکے نئی نسل کو ماضی سے روشناس بھی کراتے ہیں اور موجودہ صورتحال سے بھی آگاہ کرتے ہیں۔