ہفتہ، 1444، 26 نومبر 2022ء
خواتین کو وراثت میں حصہ نہ دینے والوں کو الیکشن لڑنے سے روکا جائے۔ سراج الحق
یہ ہے جماعت اسلامی کی حقیقی جدوجہد کا وہ رنگ جو سب کے سامنے لانا ضروری ہے۔ ایک مذہبی سیاسی جماعت جب تک ایسے مسائل پر بات نہیں کرے گی جس کا تعلق ہمارے سماج اور معاشرت سے ہے اس وقت تک یہ مسائل حل نہیں ہوں گے۔ سراج الحق نے کیا خوب ضرب لگائی ہے۔ عورتوں کو وراثت میں حصہ دیتے ہوئے ہمارے بڑے بڑے نوابوں، سرداروں، جاگیرداروں ، خانوں، شاہوں اور چودھریوں کو موت آتی ہے۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ وہ اس اسلامی قانون وراثت کو ختم کرا دیں۔عورتوں کے حقوق کے حوالے سے ان کے مسائل پر بے تحاشہ شور ہوتا ہے مگر عورتوں کو آج تک اس جدید دور میں بھی ان کے جائز حقوق اور باپ کی وراثت سے محروم رکھا جاتا ہے۔ صرف یہی نہیں اور بھی بہت سے مظالم ہیں جو ہمارے معاشرے میں مردوں کو بچانے کے لیے عورتوں پر روا رکھے جاتے ہیں۔ بیٹوں کی غلط کاری اور جرائم کی سزا بیٹیوں کو بھگتنا پڑتی ہے۔ کہیں انہیں ونی کیا جاتا ہے کہیں سور ا اور کہیں بدلے کے طور پرجاہلانہ رسوم و رواج پر قربان کیا جاتا ہے۔ قتل مرد کرتا ہے اور بدلے میں عورت دے کر صلح کی جاتی ہے۔ پورے معاشرے میں چاروں صوبوں یہ علت عام ہے۔ اب سراج الحق نے اس سماج کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے جس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اب الیکشن کمشن یا حکومت اگر واقعی ایسا کر دے اور عورتوں کو وراثت سے محروم رکھنے والوں کے الیکشن لڑنے پر پابندی لگا دے تو مزہ آ جائے۔ بڑے بڑے گھرانوں میں صف ماتم بچھ جائے گی۔ قانون وراثت پہلے سے موجود ہے اس پر کوئی عمل کرے یا نہ کرے ریاست خود اسلامی حکم کے مطابق وراثت کی تقسیم کے عمل کی نگرانی کرے تو صدیوں سے اپنے حق سے محروم عورتوں کو حق ملنا شروع ہو جائے گا۔
٭٭٭٭٭
صدر لاہور میں عمران خان سے پاک انگلینڈ کرکٹ سیریز پر مشاورت کریں گے۔ شجاعت
صدر مملکت عارف علوی اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے درمیان گزشتہ روز لاہور میں ہونے والی ملاقات پر اس سے زیادہ دلچسپ مختصر اور بامعنیٰ تبصرہ شاید ہی کوئی کر سکتا ہے۔ یہ خاص انداز بھی بزرگ سیاستدان چودھری شجاعت کا ہے جو مٹی پائو اور روٹی شوٹی کھائو جیسے بلیغ سیاسی جملوں کے حوالے سے پہلے ہی اپنی مثال آپ ہیں۔ ویسے بھی پاکستان کی کرکٹ ٹیم انگلینڈ کے دورے پر جا رہی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ صدر اور عمران کی ملاقات میں اس دورے پر بھی بات ہوئی ہو کیونکہ عمران خان کرکٹ کے کھلاڑی اور ٹیم کے کپتان بھی رہے ہیں۔ اسی لیے چودھری شجاعت نے یہ خوبصورت جملہ کہا ہے۔جس کی داد نہ دینا زیادتی ہے۔
لوگ صدر مملکت کے عمران خان سے اس بیتا بانہ مختصر ملاقات پر طرح طرح کے تبصرے کر رہے ہیں۔ اسے بلاوجہ کی مشقت قرار دے رہے ہیں کہ بھلا آنے جانے کی تکلیف کی کیا ضرورت تھی۔ ویڈیو کال کر کے بھی دل کی بھڑاس نکالی جا سکتی تھی۔ مگر شاید فون ریکارڈنگ کی وجہ سے براہ راست مختصر ملاقات کو ترجیح دی گئی۔ کسی زمانے میں خط کو آدھی ملاقات کہا جاتا تھا۔ اب ویڈیو کال کو کیا ایک تہائی ملاقات کہا جا سکتا ہے۔ کیا فرماتے ہیں ماہرین انفارمیشن ٹیکنالوجی اور موبائل فونز بیچ اس مسئلہ میں۔ یہ بھی تو بالمشافہ ملاقات ہی ہوتی ہے بس ہاتھ شاتھ نہیں ملا سکتے۔ گلے نہیں مل سکتے۔
٭٭٭٭٭
لیڈر شپ کا کام لڑنا ہوتا ہے۔ قمر جاوید باجوہ کی کرکٹ کھلاڑیوں سے گفتگو
جی جان سے اپنی حریف ٹیم سے لڑنا، جیت کے لیے جان لڑا دینا ہی کھلاڑیوں کو زیب دیتا ہے۔ اگر کھلاڑی ہمت ہار جائیں تو پھر جیتنے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا۔ یہ بات پاکستان کرکٹ ٹیم سے زیادہ کون جانتا ہو گا۔ سابق آرمی چیف نے گزشتہ شب قومی کرکٹ ٹیم کے دئیے ایک عشائیے میں شرکت کی، جہاں وہ کھلاڑیوں سے خوب گُھل مل گئے اور انہوں نے کھلاڑیوں کی ایشیا کپ ٹی ٹونٹی کی کارکردگی کو بھی سراہا۔ کھلاڑیوں سے باتیں کیں، شاہین آفریدی سے انجری کا پوچھا ان کا حال دریافت کیا۔ تقریب میں صدر مملکت عارف علوی بھی موجود تھے انہوں نے بھی آرمی چیف سے ہاتھ ملایا۔ اس موقع پر تصویر میں نجانے کیوں مسکراہٹ کے باوجود ان کی نگاہیں جھکی جھکی سی لگ رہی تھیں۔ اب سابق آرمی چیف کی بات کا مطلب ہماری سیاسی قیادت اپنی مرضی کا نہ لے جو پہلے بھی ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے کو تیار رہتی ہے۔ حالانکہ سیاست کا کام عوام کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنا ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں سیاست کا کام ایک دوسرے سے توڑنا اور جُدا کرنا رہ گیا ہے۔ رہا لڑنے کا کام تو وہ ہمارے سیاستدان پہلے ہی یہ کام نہایت خوش اسلوبی سے انجام دے رہے ہیں۔ اسمبلی میں سڑکوں پر جہاں دیکھیں یہ لڑائی جاری و ساری ہے۔ ہماری کرکٹ ٹیم اب انگلینڈ کے دورے پر روانہ ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے ہمارے کھلاڑیوں کو قمر جاوید باجوہ کی یہ نصیحت پلے باندھ لینا چاہیے کہ وہ کھیل میں جی جان لڑا دیں یہی کھلاڑی کا کام ہوتا ہے۔ رہا نتیجہ وہ اوپر والے کے ہاتھ ہے جو آئے گا دیکھا جائے گا۔
٭٭٭٭٭
بھارت میں تعینات ہونے والی امریکی سفارتکار نے رکشہ خرید لیا
امریکی سفارتکار این ایل میسن کا تبادلہ بھارت ہو گیا ہے۔ موصوفہ پاکستان میں رہتے ہوئے یہاں کے رکشوں کی دیوانگی کی حد تک عاشق ہیں۔ اس لیے انہوں نے بھارت جانے سے قبل ایک رکشہ خرید لیا ہے جس میں سفر کی ویڈیو بھی انہوں نے سوشل میڈیا پر شیئر کی ہے۔ این ایل میسن کے بقول روایتی بڑی بڑی گاڑیوں، پروٹوکول میں سفر کرتے کرتے وہ بیزار سی ہو گئی ہیں اس لیے انہیں رکشہ کی عوامی سواری بہت پسند ہے۔ اب وہ اس رکشے میں من پسند تبدیلیاں کرا رہی ہیں جس کے بعد وہ اسے بھی اپنے ساتھ بھارت لے جائیں گی۔ پاکستان اور بھارت میں رکشہ ایک مقبول عوامی سواری ہے۔ پاکستان میں البتہ ٹرک آرٹ کی طرح رکشہ آرٹ بھی ایک پسندیدہ فن ہے۔ بلوچستان میں تو رکشے آرٹ کا نمونہ بنے نظر آتے تھے۔ مگر جب سے یہ نئے گیس والے رکشے آئے ہیں ان کو آرٹ کا نمونہ بنانا قدرے دشوار ہو گیا ہے کیونکہ وہ ویسے ہی بے ڈھنگے ہوتے ہیں۔ ویسپا رکشے کی بات ہی اور تھی بلوچستان میں تو اکثر خوبصورت سجے سجائے رکشوں پر ’’اٹلی کا آخری تحفہ‘‘ خاص طور پر لکھا ہوا ملتا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان خاتون سفارت کار کے علاوہ مزید تین دیگر ان کی ساتھی سفارت کار خواتین نے بھی رکشے خرید لیے ہیں اور وہ بھی ان میں من پسند تبدیلیاں کرا رہی ہیں پھر اس کے بعد اس میں سفر کر کے اپنا رکشہ میں سفر کا شوق پورا کریں گی۔ رکشہ آج بھی پاکستان میں عوامی سواری کے طور پر مقبول ہے۔ اب تو آہستہ آہستہ یہ سفارتکاروں کے دل میں بھی جگہ بنا رہا ہے۔
٭٭٭٭٭