یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں ماہی پروری کا عالمی دن منایا گیا
لاہور (سپیشل رپورٹر ) یونیورسٹی آف ایجوکیشن، لاہور کے مرکزی کیمپس میں گزشتہ روز ماہی پروری کا عالمی دن منایا گیا۔ اس موقع پر عالمی سیمپوزیم اور چھوٹے پیمانے پر مچھلیوں کی افزائش سے متعلق ایک ٹریننگ کا بھی اہتمام کیا گیا۔ مہمان مقررین میں ایران سے ڈاکٹر سید حسین حسینفر، ڈی جی فشریز پنجاب ڈاکٹر سکندر حیات، سابق ڈی جی فشریز ڈاکٹر محمد ایوب، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور سے پروفیسر ڈاکٹر عاطف یعقوب، ڈاکٹر مہوش فہیم اور آل ٹیک پاکستان کے سی ای او ڈاکٹر شہزاد جدون شامل تھے۔ اس موقع پر یونیورسٹی آف ایجوکیشن، لاہور کے پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد ارشد، ڈائریکٹر ڈویڑن آف سائنس ٹیکنالوجی پروفیسر ڈاکٹر عالم سعید، چیئرپرسن ڈیپارٹمنٹ آف زوالوجی پروفیسر ڈاکٹر شگفتہ عندلیب، دیگر جامعات کے طلباء، فیکلٹی، فش فارمر اور دیگر سٹیک ہولڈرزکی کثیر تعداد موجود تھی۔
ماہی پروری کے عالمی مباحثہ سے خطاب کرتے ہوئے یونیورسٹی آف ایجوکیشن، لاہور کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر طلعت نصیر پاشا (ستارہِ امتیاز) نے کہا کہ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک، جو قدرتی آبی وسائل سے مالا مال ہے لیکن بدقسمتی سے ہم ان وسائل سے وہ فائدہ نہیں اٹھا پا رہے، جس کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں مچھلی کی پیداوار ایک ملین میٹرک ٹن سے بھی کم ہے، جو وطن عزیز کو دستیاب ایک وسیع کوسٹل لائن اور ملک کی مجموعی زمین کا 30 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہونے کے باوجود ایک بدقسمتی ہے۔ حالیہ برسوں میں ماہی گیری کے شعبہ کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں قدرتی آفات، موسمیاتی تبدیلی، ماحولیاتی آلودگی اور حد سے زیادہ ماہی گیری شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایکواکلچر میں بہت زیادہ پوٹینشل ہے اور اگر نجی شعبہ بھی اس میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے ہوئے شرکت کرے تو اس سے بہترین نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں، اس شعبہ کے توسط سے ہم اپنی معیشت کو مضبوط سہارا دے سکتے ہیں۔ ہمارا کسان نہایت محنتی ہے، وہ نئی چیزیں سیکھنے کے لئے تیار ہے، بس ضرورت اس جانب توجہ دینے کی ہے۔ وائس چانسلر نے کہا کہ اس سیمپوزیم کا بنیادی مقصد ماہی پروری کی صنعت سے وابستہ تمام شرکت داروں، حکومتی نمائندوں، محققین، نجی شعبے کے ماہرین اور اساتذہ کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے، جہاں وہ وسیع پیمانے پر تبادلہ خیال کرکے اس صنعت کے فروغ و ترقی کے لئے کام کر سکیں۔ اس موقع پر مہمان مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے جسم کے لئے ضروری پروٹین کا خاطر خواہ حصہ مچھلی اور دیگر سمندری حیات سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ آبی زراعت کو ترقی دے کر ہم نہ صرف شہروں کی ضروریات پوری بلکہ دیہی آبادی کی زندگیوں میں بھی انقلاب لا سکتے ہیں۔ آبی زراعت اس وقت دنیا بھر میں تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت کا درجہ حاصل کر چکی ہے، لہذا ہمیں بھی اس پر بھرپور توجہ دینا ہو گی۔ مقررین نے مزید کہا کہ آبی زراعت کے بارے میں عوامی سطح پر زیادہ آگاہی موجود نہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے سیمپوزیم کے انعقاد سے آبی زراعت کے شعبے کو وسیع پیمانے پر متعارف کروایا جا سکتا ہے۔ پروگرام کے اختتام پر آرگنائزر ڈاکٹر محمد مدثر شہزاد نے شرکائ کا ان کی آمد پر شکریہ ادا کیا۔