گورنمنٹ کالج ساہیوال ایلومنائی ایسوسی ایشن کا دوسرا ڈنر
یہ میری زندگی کی ایک خوبصورت شام تھی۔ گورنمنٹ کالج ساہیوال ایلومنائی ایسوسی ایشن کا پہلا ڈنراکتوبر 2021ء میں منعقد ہوا تو بہت بعد میں خبر ہوئی۔ 19 نومبر 2022ء کی شام دوسرے ڈنر میں شرکت کے لئے کالج پہنچے تو کالج اپنے گزشتہ 70 سال کی تربیت کردہ نسلوں کو خوش آمدید کہنے کے لئے بقعہ نور بنا ہوا تھا۔ جیسے ہی سائیکل سٹیند کی طرف والے گیٹ سے داخل ہوئے تو میری نظر سائیکل سٹینڈ پر پڑی تو مجھے یاد آیا کہ ہر سائیکل کے لئے نمبر الاٹ ہوا کرتا تھا اور وہ نمبر سائیکل کے پچھلے مڈگارڈ کے نچلے حصے پر لکھوانا ضروری تھا۔ ضروری کاروائی کے بعد مجھے گاڑی سمیت کالج کے سامنے والی سڑک پر جانے کی اجازت مل گئی۔ میں نے جیسے ہی کالج بلڈنگ پر نظر ڈالی تو محسوس ہوا جیسے کالج کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی جیسے کہہ رہا ہو۔ " مجھے معلوم تھا کہ تم اس دفعہ ضرور آئو گے۔میں دیگر لوگوں کے ساتھ ساتھ تمہارا بھی منتظر تھا۔ گزشتہ بار تم 1998ء میں آئے تھے اور تمہارے ساتھ بیٹھا ہوا تمہارا بیٹا آٹھویں کلاس کا طالب علم تھا اور تم اسے اپنے چیدہ چیددہ کلاس رومز اور ریڈنگ روم دکھاتے رہے۔آج تم اتنی مدت بعد آئے ہو تو میں بہت خوش ہوں۔ اس لئے بھی کہ تم نے میرا پڑھایا ہوا پہلا سبق یاد رکھا کہ جو تم لکھتے پڑھتے ہو،اپنی گفتار،کردار اور رویے سے ویسے نظر بھی آئو۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ تم نے استاد کا پیشہ اپنایا اور اپنے طلبا تک بھی یہ پیغام تا دم ریٹائرمنٹ پہنچاتے رہے۔ خوش آمدید اے میرے نصف صدی پرانے طالب علم! کالج سے گفتگو کا یہ مرحلہ پل بھر میں بیت گیا۔ کالج کے پرنسپل ڈاکٹر ممتاز احمد ،ڈاکٹر افتخار شفیع اور ان کے معاونین نے دیگر لوگوں کے ساتھ ساتھ ہمارا بھی گرم جوشی سے گلے لگا کر استقبال کیا۔ میں کالج آفس کے گیٹ کی طرف سے اندر داخل ہوا تو بے ساختہ میں نے کالج کی عمارت کو چوم لیا۔ اس موقع پر میری آنکھیں فرط مسرت سے گیلی ہونے کی بجائے روشن ہو گئیں۔ میں کہ سٹک کی سپورٹ سے بھی بمشکل چل سکتا تھا ،نجانے طاقت کہا ں سے آ گئی، میں نے اکیڈیمک بلاک کے زیریں حصے اور کالج ہال کے سامنے والے گراسی لان اور پرانے ریڈنگ روم کے پورشن کو جی بھر کر دیکھا۔چند ثانیے پرنسپل آفس میں بیٹھنے کے بعد میں پنڈال میں اپنے نام کی چٹ لگی نشست پر آ کر بیٹھ گیا۔ ایک دو شرکا نے پوچھا کہ طاہر نسیم بھی آئے ہوئے ہیں،میں نے نفی میں جواب دیا کہ ان کی کوئی طبی مجبوری تھی۔
میرے سامنے اکیڈیمک بلاک کے پہلے پورشن کا برآمدہ اور اوپر نیچے تمام کمرے جگمگا رہے تھے۔ مجھے ماضی کے بطن میں اترتے ایک لمحہ لگا۔ اس وقت کے کمرہ نمر 12 میں انگریزی کے استاد پروفیسر علی اظہر نقوی طلبہ کو ساتھ لے کر ٹرانس میں جا چکے ہیں اور کیٹس کی کسی نظم کی جمالیاتی پرتیں کھلتی چلی جا رہی ہیں۔ آخر یہ ٹرانس پیریڈ ختم کرنے والی گھنٹی سے اختتام کو پہنچا۔ ساتھ والے کمرے میں دلدار پرویز بھٹی اپنے شگفتہ انداز سے ہم سے محو گفتگو ہیں اور دل چاہتا ہے کہ یہ پیریڈ کبھی ختم نا ہو مگر حقائق خواہشات کے تابع نہیں ہو سکتے۔ پیریڈ کی گھنٹی نجانے کب بجی محسوس ہی نہیں ہوا تا آنکہ اس کمرے میں پیریڈ لینے والے استاد نے دروازہ کھٹ کھٹایا تو احساس ہوا کہ دس منٹ اوپر ہو چکے ہیں۔ نیچے ایک کلاس روم میں پروفیسر سید اکبر علی شاہ جدید فارسی لہجے میں اپنی نرم گفتاری سے حافظ شیرازی کی غزل پڑھ کر اس کی اردو میں تشریح کر رہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ حافظ شیرازی کی شاعری کا غالب عنصر امید پسندی اور رجائیت ہے۔
اگلی کلاس اوپرکے کلاس روم میں ہے۔ ہم جلدی میں سٹینڈ نگ ہال سے اوپر جانے والی دائیں جانب کی سیڑھیوں سے کلاس روم میں پہنچتے ہیں کیونکہ اکنامکس کے پروفیسرمحمد اسلم صاحب پیریڈ بجتے ہی کلاس روم میں پہنچ جاتے ہیں اور پانچ منٹ کے بعد کوئی سٹوڈنٹ معقول وجہ بتائے بغیر کلاس روم میں داخل نہیں ہو سکتا۔ میں نے ارد گرد دیکھا کہ مہمان اپنی نشستیں سنبھال چکے تھے اور ڈاکٹر افتخار شفیع تقریب کا آغاز کر رہے تھے۔
تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبول کے بعد بزرگ ترین اور سب کے استاد پروفیسر قمرالزمان خان، بریگیڈئیر کرمانی، جسٹس (ر) حسنات احمد، بریگیڈیئر ظاہرخان اور سینئر وائس پریزیڈنٹ ساہیوال ایلومنائی جناب سعید آسی سے ہوتے ہوتے سلسلہ کلام مجھ تک پہنچا تو میں نے کچھ کہا،کچھ ان کہا رہ گیا۔ کہی اور ان کہی کو ملا لیں تو بات کچھ یوں بن پائی:۔ ’’گورنمنٹ کالج ساہیوال‘‘ایلومنائی کے دوسرے سالانہ ڈنر کے انعقاد پر ہم تمام شرکا پرنسپل صاحب اور ان کی ٹیم کے بہت ممنون ہیں اور ان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔ یہ ایک خوبصورت خواب تھا کہ جو آج پورا ہو رہا ہے۔ 1978ء میں شروع ہونے والا تدریسی اور انتظامی کیرئیر 2013ء میں اختتام کو پہنچا۔ اس دوران اس کالج کی تمام روایات میرے ساتھ ساتھ چلیں۔ وہ تمام اچھی باتیں جو یہاں سے سیکھیں انہیں اپنے طلبا اور اداروں کو منتقل کیا۔ اگر یہ کالج نا ہوتا یا ہم یہاں نا پڑھ پاتے تو زندگی میں کچھ بھی نا کر پاتے۔ سلام ہے اس عظیم مادر علمی کو۔ اس سے پہلے کہ لکنت ہمارے لہجوں کو پکڑ لیتی یا ہماری بصارتیں آج ملنے والے دوستوں کے خط و خال کو پہچاننے میں دقت محسوس کرتیں، اس تقریب کے انعقاد نے ہمارے اندر زندگی کی روح پھونک دی ہے۔ اس موقع پر میں گورنمنٹ کالج ساہیوال ایلومنائی ایسوسی ایشن کے صدر عاطف محمود کی صحتیابی کی دعا کرتا ہوں، وہ یہاں موجود نا ہو کر بھی موجود ہیں۔ آخر میں پرنسپل ڈاکٹر ممتازاحمد نے اپنے خطاب میں کہا کہ گورنمنٹ کالج ساہیوال ایلومنائی ایسوسی ایشن کا قیام ان کے اہم اہداف میں سے ایک تھا جو گزشتہ سال پورا ہوا اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ کالج سے نکلے تو ساہیوال کی سڑکوں اور بازاروں میں گھومتے،بچپن سے آج تک کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے،عازم لاہور ہوئے۔