نئے آرمی چیف سے توقعات!!!
آج جنرل قمر جاوید باجوہ ریٹائر ہو رہے ہیں۔جنرل عاصم منیر افواجِ پاکستان کے نئے سربراہ کی حیثیت سے ایک نئے دور کا آغاز کر رہے ہیں۔ پاکستان میں گذشتہ چند ماہ سے سیاسی افراتفری کی وجہ عسکری قیادت کی تبدیلی تھی گوکہ شروع شروع میں لوگ اس حوالے سے محتاط گفتگو کرتے رہے لیکن بعد میں سٹیک ہولڈرز نے اس حوالے سے کھل کر بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ سیاسی افراتفری کی وجہ کوئی بیرونی مسائل نہیں تھے بلکہ اندرونی مسائل تھے اور اس کی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے اپنے سیاستدان تھے جو ہر وقت آئین، قانون اور جمہوریت کے چیمپیئن بنتے ہیں وہ نہیں چاہتے تھے کہ معاملات آئین، قانون کے مطابق چلیں اور جمہوری نظام حقیقی معنوں میں اصل روح کے ساتھ چلتا ہوا نظر آئے۔ بہرحال اس سیاسی افراتفری کے باوجود ادارے نے میرٹ پر سمجھوتہ نہیں کیا، سنیارٹی کے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا گیا، گوکہ عوامی سطح پر افواجِ پاکستان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا سینئر فوجی افسران کو نام لے لے کر ہدف بنایا گیا، عوام کو فوج کے ساتھ لڑانے کی ہر ممکن کوشش ہوئی لیکن افواجِ پاکستان کی طرف سے آئین و قانون اور میرٹ کی بالادستی کو یقینی بنایا گیا۔ وہ سب لوگ جو اپنا اپنا آرمی چیف چاہتے تھے ان سب کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا اور ملک کی سرحدوں کے محافظوں نے ہر قسم کی سیاسی اور ذاتی تنقید کا صبر و تحمل سے سامنا کیا، نامناسب الفاظ کے استعمال پر خاموشی اختیار کی اور وسیع تر ملکی مفاد میں اپنے کام سے کام رکھنے اور میرٹ کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے کام کیا۔ کیا مخصوص سیاسی قیادت کبھی قوم کو سچ بتائے گی یہ سارا تماشا صرف اور صرف میرٹ کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنے کے لیے کیا گیا تھا، اس سیاسی مشق کا کوئی اور مقصد ہرگز نہیں تھا لیکن شاید کبھی فساد پھیلانے والے کبھی یہ تسلیم نہ کریں لیکن حقیقت یہی ہے کہ سارا کھیل صرف اور صرف اپنا کھیل بنانے اور باقی سب کا کھیل بگاڑنے کے لیے تھا۔ اس سیاسی سرگرمی کا کوئی سیاسی مقصد نہ تھا سوائے اس کے کہ افواجِ پاکستان کو دفاعی پوزیشن پر لایا جائے اور سب کو من پسند فیصلوں کے لیے مجبور کیا جائے لیکن ان کی بدقسمتی اور ہماری خوش قسمتی کہ ایسا ہو نہیں سکا اور تمام معاملات خوش اسلوبی سے طے پائے ایک بہترین جنرل دنیا کی بہادر اور غیور فوج کی سربراہی کر کے ریٹائر ہو رہا ہے تو ایک بہترین جنرل اس کی جگہ افواجِ پاکستان کی قیادت سنبھالنے کے لیے تیار ہے۔ دونوں کا مقصد ملک و قوم کی خدمت ہی ہے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کہتے ہیں کہ "ایک طبقے نے فوج کو غیر سیاسی بنانے کے فیصلے کو منفی انداز میں لیا جبکہ افواج پاکستان پروپیگنڈے اور جھوٹے بیانیے کے باوجود غیر سیاسی رہنے کے فیصلے پر ثابت قدم رہے گی۔
فوج نے اندرونی خلفشار پر قابو پانے میں ہمیشہ کردار ادا کیا اور عسکری سفارتکاری کے ذریعے عالمی سیاست میں توازن قائم رکھا۔ فوج کے غیر سیاسی ہونے کو کچھ افراد نے ہدف تنقید بنایا البتہ فوج کے غیر سیاسی ہونے سے جمہوری اقدار پروان اور پاکستان میں سیاسی استحکام کو فروغ ملے گا۔ فوج کے غیر سیاسی ہونے سے فوج کے عوام سے تعلقات مضبوط ہوں گے۔" اب اس کے بعد کچھ ڈھکا چھپا نہیں ہے کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران کس انداز میں فوج کو سیاسی کردار کے لیے پکارا جاتا رہا لیکن ملک میں جمہوری نظام کے فروغ، تحمل اور برداشت کی روایت کو عام کرنے اور جمہوریت کو مضبوط بنانے کے لیے فوج کی اعلیٰ قیادت نے سیاسی لوگوں سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ اب سیاسی قیادت کو ایک قدم آگے بڑھ کر ملک میں جمہوری نظام کی مضبوطی کے کیے کردار ادا کرنا ہو گا یاد رکھیں جمہوری نظام زیادہ سے زیادہ لوگوں کو نظام میں شامل رکھنے کا نام ہے، زیادہ سے زیادہ لوگوں کے ساتھ بات چیت اور گفتگو کے ذریعے مسائل حل کرنے پر زور دیتا ہے، جمہوری نظام سیاسی حریفوں کو برداشت کرنے اور انہیں ساتھ بٹھانے کا سبق دیتا ہے۔ پارلیمانی جمہوریت صرف ایک جماعت کا نام نہیں ہے یہاں مختلف علاقوں سے مختلف جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کا موقع ملتا ہے اور ان سب کو ساتھ ملا کر چلنا ہی نظام کو مضبوط بناتا ہے لیکن اگر کوئی یہ سمجھے کہ صرف ایک ہی جماعت ہے، صرف ایک ہی سیاسی قائد ہے اور صرف ایک ہی سیاسی سوچ ہے تو پھر یہ پارلیمانی جمہوریت سے متصادم رویہ ہے۔ جمہوریت اسے قبول نہیں کرتی اب جو لوگ اس سوچ کے حامل ہیں انہیں اپنی سوچ بدلنا ہو گی ورنہ نظام کو لاحق خطرات میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
اب سیاسی قیادت اپنے اپنے انداز میں نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کر رہی ہے۔ لوگوں کو یہ سمجھ نہیں آ سکی کہ وہ ملک کے دفاع اور سرحدوں کے محافظ ہیں، وہ ملک کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے دفاعی منصوبوں کو آگے بڑھائیں گے۔ ملک دشمنوں کا قلع قمع کریں گے ان کی دفاعی ذمہ داریوں کو نظر انداز کر کے سیاست دان اپنے اپنے انداز میں گفتگو کر رہے ہیں۔ سیاسی قیادت کو اپنے مسائل، اقتدار اور انتخابات کی فکر ہے کوئی یہ بات نہیں کر رہا کہ خطے میں جہاں عالمی طاقتیں اپنے کھیل کھیلنے میں مصروف رہتی ہیں وہاں پاکستان کا کردار کتنا اہم ہے اور بھارت جیسے ازلی دشمن کی موجودگی میں فوج کو کن کن حوالوں سے ہمیشہ متحرک رہنا پڑتا ہے۔ سیاسی قیادت کو کھلے دل، تعمیری سوچ اور بین الاقوامی معاملات کا جائزہ لینے کے بعد اپنے نیے آرمی چیف کو مشورہ دینا چاہیے۔ حقیقت یہی ہے کہ انہیں ہم سب سے بہتر معلوم ہے کہ فوج کو کب اور کیا کرنا ہے۔ نئے آرمی چیف کے لیے سب سے پہلے پاکستان ہے اور وہ ہر فیصلہ پاکستان کے بہتر مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے ہی کریں گے۔ ان کے نزدیک پاکستان کی بہتری سب سے اہم ہو گی۔ باقی جس کا دل کرتا ہے انہیں مشورہ دیتا رہے لیکن مشورہ دیتے وقت یہ ضرور خیال کریں کہ وہ پاکستان کے آرمی چیف ہیں۔ ان کے لیے پاکستان سب سے اہم ہے۔