رابطے تیز ، شہباز ، زرداری ملاقات
اسلام آباد‘ لاہور‘ فیصل آباد (خبر نگار خصوصی‘ نامہ نگار ‘اپنے سٹاف رپورٹر سے‘ نوائے وقت رپورٹ‘ نمائندہ خصوصی‘ ایجنسیاں) صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے اور بچانے‘ عدم اعتماد لانے کے معاملات پر دونوں طرف رابطوں میں تیزی آگئی۔ وفاقی حکومت اور اتحادی جماعتوں نے عمران کی حکمت عملی ناکام بنانے کیلئے مختلف آپشنز پر غور کیا۔ پنجاب میں عدم اعتماد لانے اور گورنر راج پر بھی گفتگو کی گئی۔ وزیراعظم شہبازشریف اور سابق صدر آصف زرداری کی ملاقات ہوئی۔ دوسری طرف وزیراعلیٰ پنجاب پرویزالٰہی اور پرویز خٹک مل بیٹھے۔ فریقین نے آئینی ماہرین سے بھی رابطے کئے ہیں۔ بلوچستان میں یار محمد رند سمیت 4 ارکان صوبائی اسمبلی نے استعفے دینے سے انکار کر دیا۔ پی ٹی آئی قیادت نے پنجاب اور سندھ اسمبلی کے ارکان کو بیرون ملک جانے سے روک دیا ہے جبکہ فیصل آباد سے پی ٹی آئی کے اکثر ایم پی ایز نے پنجاب اسمبلی سے استعفے دینے کی مخالفت کر دی اور پارٹی کو اسمبلی میں رہ کر مقابلہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف سے سابق صدر آصف علی زرداری نے ملاقات کی۔ دونوں رہنمائوں کے درمیان ملاقات وزیراعظم ہائوس میں ہوئی۔ ملاقات میں پنجاب کی سیاست زیربحث آئی۔ آصف زرداری نے (ن) لیگ کو پنجاب اسمبلی میں تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ حکمت عملی ناکام بنانے کیلئے مختلف آپشنز پر غور کیا۔ پنجاب میں گورنر راج اور تحریک عدم اعتماد پر بھی گفتگو کی گئی۔ دوسری طرف پیپلًزپارٹی اور (ن) لیگ کا مشاورتی اجلاس ہوا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے معاملے پر (ن) لیگ نے اراکین اسمبلی سے دستخط کروانا شروع کر دیئے۔ (ن) لیگ نے تمام ارکان اسمبلی کو مرحلہ وار مرکزی سیکرٹریٹ طلب کر لیا۔ پہلے مرحلے میں لاہور اور گوجرنوالہ ڈویژن کے ارکان کو طلب کیا گیا۔ لاہور اور گوجرانوالہ ڈویژن کے لیگی ارکان اسمبلی نے تحریک عدم اعتماد پر دستخط کر دیئے۔ رکن اسمبلی نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کسی قت بھی جمع کرائی جا سکتی ہے جبکہ اسمبلیوں کی تحلیل کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن نے مشاورت کیلئے آئینی ماہرین سے رابطے کئے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن نے رائے مانگی ہے کہ عدم اعتماد کا کیا طریقہ ہوگا؟۔ کیا اسمبلی تحلیل ہونے پر وزیراعلیٰ کے اختیارات ہونگے؟۔ اپوزیشن نے اپنے اتحادیوں سے رابطے شروع کر دیئے۔ جمعہ کو پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بھی اہمیت اختیار کر گیا۔ اتحادی جماعت (ق) لیگ کے ارکان بھی اجلاس میں شرکت کریں گے جبکہ اسمبلی تحلیل کے معاملے میں وزیراعلیٰ خیبر پی کے محمود خان نے ایم پی ایز سے رابطے کئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ نے ایم پی ایز کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دی۔ آئندہ ہونے والے اجلاس میں اسمبلی کی تحلیل پر مشاورت ہوگی۔ وزیراعلیٰ ارکان اسمبلی کو استعفے پیش کرنے سے متعلق اعتماد میں لیں گے۔ فیصل آباد سے نمائندہ خصوصی کے مطابق فیصل آباد سے پی ٹی آئی کے اکثریتی ایم پی ایز نے پنجاب اسمبلی سے استعفے دینے کے فیصلہ کی مخالفت کردی۔ پارٹی کو اسمبلی کے اندر رہ کر جمہوری انداز میں مقابلہ کرنے کا مشورہ دے دیا۔ پنجاب اسمبلی سے مستعفی ہونے کے اعلان پر عمران خان کے اپنی ہی جماعت کے ارکان کی مخالفت میں بڑھ چڑھ کر سامنے آرہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق سابق وزیر چوہدری ظہیر الدین اور چوہدری علی اختر پارٹی پالیسی کی دوسری جانب کھڑے ہیں اور عمران خان کو مستعفی ہونے کی بجائے اسمبلی میں رہ کر مقابلہ کا مشورہ دے رہے ہیں۔ فیصل آباد سے ہی ارکان پنجاب اسمبلی شکیل شاہد، وارث عزیز، خیال کاسترو، صفدر شاکر، عمر فاروق بھی پارٹی کے اس فیصلے کے حق میں نہیں ہیں اور کھل کر استعفوں کی مخالفت کررہے ہیں۔ اسلام آباد سے اپنے سٹاف رپورٹر کے مطابق عمران خان اگلے ہفتے ویڈیو لنک سے پی ٹی آئی کے تمام اراکین صوبائی اسمبلی سے خطاب کریں گے۔ کے پی کے اسمبلی کے اراکین کا اجلاس جمعہ کو ہوگا جنہیں عمران خان صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کے معاملے پر اعتماد میں لیں گے اور اپنی اس حکمت عملی کے بارے میں بات کریں گے۔ مزید برآں خیر پی کے اسمبلی تحلیل کرنے کے بارے میں وزیراعلیٰ محمود خان کی زیرصدارت اجلاس ہفتہ کو ہوگا۔ عمران خان بذریعہ ویڈیو لنک اجلاس میں شریک ہونگے۔ عمران خان پارٹی ارکان کو اعتماد میں لیں گے۔ اپوزیشن نے خیبر پی کے میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کرنے کا مطالبہ کیا۔ اپوزیشن جماعتیں مالیاتی ایمرجنسی کے نفاذ پر متفق ہیں۔ اپوزیشن کا موقف ہے کہ صوبائی حکومت کے پاس آئندہ ماہ تنخواہوں کیلئے پیسے نہیںہیں۔ دریں اثنا پی ٹی آئی استعفوں کے معاملے میں یار محمد رند سمیت 4 ارکان نے استعفے دینے سے انکار کر دیا۔ تین ارکان میں سے صرف مبین خلجی استعفیٰ دینے پر راضی ہو گئے۔ نصیب اللہ مری اور ڈپٹی سپیکر بابر موسیٰ خیل بھی تذبذب کا شکار ہو گئے۔ سردار محمد رند نے کہا کہ اسمبلی سے استعفے دینے کے حق میں نہیں ہوں۔ جبکہ پی ٹی آئی اور (ق) لیگ کی قیادت نے اہم فیصلہ کیا اور اتحادی ارکان پنجاب اسمبلی کو بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا۔ قیادت نے ہدایت کی کہ سیاسی صورتحال پر مشاورت کیلئے ارکان ملک میں موجود رہیں۔ ارکان اسمبلی قیادت سے رابطے میں رہیں۔ پی ٹی آئی ارکان سندھ اسمبلی کو بھی بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا۔ ارکان سندھ اسمبلی سے استعفوں کے ساتھ ویڈیو بیانات بھی ریکارڈ کر لئے گئے۔ وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی سے پی ٹی آئی کے سینئررہنما پرویز خٹک نے پنجاب ہاؤس میں ملاقات کی ہے جس میں سیاسی امور اور موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ دونوں رہنمائوں کے درمیان ملاقات میں صوبائی اسمبلی کے تمام رولز آف پروسیجر کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور اسمبلی کے حوالے سے تمام تکنیکی پہلوؤں کو زیر بحث لایا گیا۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے چوہدری پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جان لے کہ پنجاب اسمبلی کسی کی ذاتی خواہش پر نہیں چلے گی، پنجاب اسمبلی میں ہر کام قانون و آئین کے تحت ہوگا، عدم اعتماد لانا یا گورنر راج لگانا اپوزیشن کا خواب ہے اور خواب ہی رہے گا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے مزید کہا کہ عمران خان کی مقبولیت شک و شبہ سے بالاتر ہے، سابق وزیر اعظم نے قوم کے اندر خود داری کا جذبہ بیدار کیا ہے، 13 جماعتوں کا نام نہاد اتحاد آخری سانسیں لے رہا ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی نے مزید کہا کہ نااہلوں پر مشتمل وفاقی حکومت نے عام آدمی کا جینا دوبھر کر دیا ہے، بہت جلد یہ اتحادی دست و گریباں ہوں گے، ہم نے پہلے بھی عمران خان کا ساتھ دیا اور آئندہ بھی کپتان کا ساتھ دیں گے۔ پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ عمران خان ذاتی مفادات کی سیاست نہیں کرتے جبکہ پی ڈی ایم نے ہمیشہ اپنے سیاسی مفادات کو ملکی مفاد پر ترجیح دی ہے۔ لاہور سے آئی این پی کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے رہنما عطا تارڑ نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ نے تہیہ کیا ہے کہ ہر آپشن استعمال کریں گے اور اسمبلی بچائیں گے۔ پنجاب اسمبلی بچانے کا مشن لیے اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز سے پیپلزپارٹی کے وفد نے ملاقات کی۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عطا تارڑ نے کہا کہ ہر طرح کی تیاری مکمل ہے۔ حکومتی بینچوں پر اراکین سے بھی رابطے تیز کریں گے۔ اس موقع پر پی پی رہنما حسن مرتضی نے کہا کہ اتحادیوں کے ساتھ شانہ بشانہ ہوں گے، بہت جلد لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ این این آئی کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے کہا ہے کہ اسمبلیاں توڑنے کے معاملے پر پارٹی جذبات میں کوئی فیصلہ نہیں کرے گی، ہر فیصلہ اپنے مناسب وقت پر ہوگا۔ اسد قیصر نے کہا کہ اسمبلیاں توڑنے کے معاملے پر پارٹی کی مرکزی قیادت نے عمران خان کے فیصلے کی توثیق کی ہے۔ وزیراعلی خیبر پختوانخواہ اسمبلی توڑنے پر رضامند ہیں۔ اسد قیصر نے کہا کہ تحریک انصاف کوئی جذباتی فیصلہ نہیں کر ے گی۔ شفقت محمود نے کہاکہ اسمبلیاں توڑنے کے فیصلے پر پارلیمانی کمیٹی سے مشاورت کا عمل جاری ہے، فیصلہ ہوچکا ہے۔ حماد اظہر نے کہا کہ کور کمیٹی نے اس معاملے میں تمام اختیارات عمران خان کو سونپ دیئے ہیں، اسمبلیاں توڑنے کی تاریخ کا اعلان ہونا باقی ہے۔ لاہور سے خصوصی نامہ نگار کے مطابق چیئرمین مجلس وحدت مسلمین علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے عمران خان سے ملاقات کے بعد تمام اسمبلیوں اور عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے عمران خان سے وفد کے ساتھ زمان پارک میں ملاقات کی۔ راجہ ناصر عباس جعفری نے ملاقات کے بعد زمان پارک میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہم اکٹھے ہیں اور اکٹھے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم متفق ہیں کہ اسمبلیوں سے استعفیٰ بھی دینا چاہئے اور نئے الیکشن کی طرف بھی بڑھنا چاہئے۔ ان کو جتنی مہلت ملے گی‘ اتنا نقصان ہوگا۔ رجیم چینج کو روکا جا سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج ہماری فوج ہے اور ہم اپنی فوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ایک سابق شخص پر تنقید پوری فوج پر تنقید نہیں۔ جبکہ سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے زمان پارک میں عمران خان سے ملاقات کی جس میں پنجاب میں تحریک عدم اعتماد سے گورنر راج پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ سبطین خان نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ اپوزیشن کی حسرتیں دل میں رہ جائیں گی۔ اسمبلی اجلاس منعقد کیا ہے۔ غیرمعینہ مدت کیلئے ملتوی نہیں کیا۔ جس طرح چیئرمین کہیں گے‘ ویسے ہی ہوگا۔مزید برآں وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے نجی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا ہے کہ پنجاب میں گورنر راج کی ضرورت نہیں، عدم اعتماد کی تحریک سے ان کا راستہ روکیں گے۔ پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کی کسی صورت حمایت نہیں کر سکتے۔ عمران خان کی اس احمقانہ کوشش کو روکیں گے۔ عدم اعتماد کی تحریک سیکرٹریٹ میں جمع کرانے پر سات دن میں اجلاس بلانا پڑے گا۔ جاری اجلاس کے دوران عدم اعتماد کی تحریک پیش ہو سکتی ہے۔ اسمبلیاں تحلیل ہونے پر پنجاب اور خیبر پی کے میں الیکشن کروا دیں گے۔ عمران خان جمہوری نظام میں ان فٹ ہیں۔ ضمنی الیکشن اور عام انتخابات میں بہت فرق ہوتا ہے۔ پنجاب میں الیکشن جیت کر دکھائیں گے۔ نواز شریف کا سزائیں ختم ہونے پر پاکستان آنے کا امکان ہے۔