نئی فوجی قیادت
فوجی قیادت کی تبدیلی کا عمل روایت و رولز کے مطابق بڑے احسن طریقے سے تکمیل پذیر ہوا۔ اب نئے آرمی چیف کیلئے حافظ سید عاصم منیر جبکہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کیلئے ساحر شمشاد مرزا کو تعینات کیا گیا ہے۔ سید عاصم منیر اور ساحر شمشاد مرزا تھری سٹار فوجی افسر تھے جنہیں ڈیفنس منسٹری نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے فور سٹار بنایا اور وہ لیفٹیننٹ جنرل سے فور سٹار جنرل بن گئے۔ جی ایچ کیو نے نئے آرمی چیف اور نئے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی سلیکشن کے لیے جن چھ لیفٹیننٹ جنرلز کے نام ڈیفنس منسٹری کو بھیجے تھے اُن میں سید عاصم منیر اور ساحر شمشاد مرزا سینئر ترین تھے۔ پہلی بار ہوا کہ پسند اور ناپسند کی بنیاد پر نہیں بلکہ سینیارٹی کی بنیاد پر دونوں افسران کا فوج کے اہم ترین عہدوں کیلئے انتخاب کیا گیا۔ یہ ’’انتخاب‘‘ وزیراعظم کی صوابدید پر تھا کہ وہ جی ایچ کیو سے آئے ہوئے چھ ناموں میں سے کن دو لیفٹیننٹ جنرل کا انتخاب آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے عہدوں کیلئے کرتے ہیں۔
ناموں کے انتخاب سے پہلے ملک میں بڑی ہیجانی کیفیت رہی۔ اس ہیجانی کیفیت کو پیدا کرنے میں سب سے اہم اور کلیدی کردار پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین، سابق وزیر اعظم عمران خان کا تھا۔ جنہوں نے ان عہدوں کو متنازع بنانے کی پوری کوشش کی۔ عمران خان چاہتے تھے اُن کا مطالبہ بھی تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ جو 28نومبر کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہو رہے ہیں، کو اُن کی مدتِ ملازمت میں توسیع دے دی جائے اور جنرل الیکشن کے بعد جو نئی حکومت آئے وہی نئے آرمی چیف اور نئے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کیلئے چھ لیفٹیننٹ جنرلز میں سے دو ناموں کا انتخاب کرے۔
عمران خان کا الزام تھا کہ نواز شریف اپنی پسند کا آرمی چیف لانا چاہتے ہیں تاکہ نئے آرمی چیف پی ٹی آئی کا صفایا اور ن لیگ کی مدد کر سکیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ سینئر ترین لیفٹیننٹ جنرل کو آرمی چیف کے عہدہ پر متمکن ہونا چاہیے۔ ورنہ سلیکٹ ہونے والے آرمی چیف متنازع رہیں گے۔ عمران خان نے اس حوالے سے دو ماہ پہلے ہی لابنگ شروع کر دی تھی۔ جلسے، جلوسوں نیز اپنے بیانات اور پریس کانفرنسوں میں بار بار یہ مدعا بڑی شدت اور کثرت سے اٹھا رہے تھے کہ جنرل قمر باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد کس کو اس عہدہ پر براجمان ہونا چاہیے۔انہوں نے اس کیلئے کچھ حدود و قیود بھی متعین کر دی تھیں۔ وہ پوری شدومد کے ساتھ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کیلئے سرگرم ہو گئے تھے۔ مسلسل اسلام آباد پر دبائو بڑھا رہے تھے کہ موجودہ حکومت اپنی مرضی کا آرمی چیف نہ لا سکے۔
لانگ مارچ کے حوالے سے اُن کا مدعا ہی یہ تھا کہ جلد جنرل الیکشن کی تاریخ دی جائے اور نئے آرمی چیف کا انتخاب الیکشن کے بعد منتخب ہونے والی نئی حکومت پر چھوڑا جائے۔عمران خان کا خیال تھا کہ چونکہ وہ اور اُن کی جماعت پی ٹی آئی عوام میں بے حد مقبول ہے۔ حالیہ ضمنی الیکشن میں بھی انہیں بے مثال کامیابی حاصل ہوئی ہے اس لیے الیکشن کے بعد وہی برسر اقتدار آئیں گے۔ پھر وہ اپنی مرضی کا چیف آف آرمی سٹاف تعینات کر سکیں گے۔ عام خیال تھا کہ عمران خاں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو نیا آرمی چیف لگانا چاہتے ہیں۔
بہرکیف انسان کی ساری خواہشیں کہاں پوری ہوتی ہیں۔ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ عمران خان نے کوشش تو پوری کی ، مہم چلائی کہ سید عاصم منیر آرمی چیف نہ بن سکیں۔عمران خان سمجھتے تھے کہ اگر آرمی چیف کے عہدہ کیلئے چھ لیفٹیننٹ جنرلز میں سے کسی سینئر ترین کا انتخاب کیا گیا تو وہ سید عاصم منیر ہوں گے۔ ویسے بھی وہ اپنی ملازمت مکمل ہونے کے بعد 29نومبر کو ریٹائر ہونے والے تھے ۔ لہٰذا عمران خان کسی صورت نہیں چاہتے تھے کہ نئے آرمی چیف سید عاصم منیر بنیں۔ اس لیے انہوں نے اس حوالے سے بھرپور مہم چلائی ہوئی تھی۔ نئی صورت حال کے مطابق سید عاصم منیر کو نیا آرمی چیف متعین کر کے اُن کی مدت ملازمت میں بھی تین سال کی توسیع کردی گئی۔ اس حوالے سے موجودہ حکومت کو آرمی رولز میں ترمیم بھی کرنا پڑی۔ رولز میں تبدیلی کی منظوری وفاقی کابینہ سے لی گئی۔ اب سید عاصم منیر تین سال تک آرمی چیف کے عہدہ پر براجمان رہ سکیں گے۔
ایوانِ صدر کو ایوانِ وزیر اعظم سے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے عہدوں پر نئے افسران کی تعیناتی کے لیے منتخب ناموں کی سمری موصول ہونے کے بعد صدر مملکت عارف علوی سمری سمیت اپنے پارٹی چیئرمین عمران خاں سے سمری میں تجویز کردہ ناموں پر مشاورت کے لیے لاہور پہنچے۔ جہاں ایئرپورٹ سے سیدھے زمان پارک لاہور عمران خان کی رہائش گاہ پر آئے اور اُن سے سمری پر صلاح مشورہ کیا۔صدر مملکت عمران خان سے صلاح مشورے کے بعد واپس اسلام آباد روانہ ہو گئے۔ اور ناموں کی سمری پر رولز کے مطابق دستخط ثبت کر کے اسے منظور کر لیا۔ اس طرح پورا ملک ہیجان کی کیفیت سے باہر نکل آیا۔ صدر علوی کو سمری موصول ہونے کے بعد کیا اپنے پارٹی چیئرمین سے صلاح مشورے کیلئے لاہور آنا چاہیے تھا۔ سیاسی مبصرین کہتے ہیں ایسا کر کے صدر عارف علوی نے اپنے عہدے کی توہین کی۔ وہ آئین کے مطابق وزیراعظم کی طرف سے بھیجی گئی سمری پر دستخط کر نے کے پابند تھے۔ اگر سمری پر دستخط نہ بھی کرتے اور التواء میں ڈالتے تو زیادہ سے زیادہ پچیس دنوں کی تاخیر کر سکتے تھے۔ ایسا کرتے تو اُن کیلئے مسائل پیدا ہو سکتے تھے۔ اچھا کیا کہ انہوں نے سمری کو منظور کر کے ایک سیاسی اور آئینی بحران کو ٹال دیا۔