پی پی پی کا یومِ تأسیس
آج پی پی پی کا یوم تاسیس ہے۔ 1960ء کی دہائی میں دو واقعات ظہور پذیر ہوئے جنہوں نے پاکستان کی معیشت اور سیاست کو متاثر کیا۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ نے پاکستان کو معاشی طور پر اور جنرل ایوب خان کو سیاسی طور پر کمزور کر دیا۔جنرل ایوب خان نے امریکی آشیرباد سے اپنے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو فارغ کر دیا۔ پاکستان کے سیاسی میدان میں کوئی ایسا لیڈر موجود نہیں تھا جو جنرل ایوب خان کا مقابلہ کر سکتا۔گویا جنرل ایوب نے اپنے زیر اثر ایک سیاسی شخصیت کو خود ہی اپنے مقابلے میں لا کھڑا کیا۔ ذوالفقارعلی بھٹو کو عوام کے نبض شناس لیڈر کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔جنرل ایوب کی معاشی پالیسیاں کامیاب تھیں ان کے نتیجے میں پاکستان میں ترقی و خوشحالی بھی آئی مگر چونکہ قومی وسائل کی تقسیم منصفانہ نہیں تھی اس لیے 22خاندان پاکستان کے قومی وسائل پر قابض ہوگئے جبکہ 98 فیصد لوگ محرومی کا شکار تھے۔ ان کو باعزت زندگی گزارنے کیلئے بنیادی حقوق حاصل نہیں تھے۔ ان حالات میں ذوالفقار علی بھٹو نے ایک نئی سیاسی جماعت قائم کرنے کا فیصلہ کیا جس کا تاسیسی کنونشن 30 نومبر اور یکم دسمبر 1967ء کو ڈاکٹر مبشر حسن مرحوم کی رہائشگاہ پر ہوا کیونکہ جنرل ضیاء الحق کے خوف سے ہوٹل کا کوئی مالک پی پی پی کوہال دینے پر تیار نہیں تھا۔ اس تاسیس کنونشن میں جس سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی گئی اس کا نام پاکستان پیپلز پارٹی رکھا گیا۔پی پی پی میں غریب مزدور کسان محنت کش عوام شامل ہوئے جبکہ امیر طبقات نے اس جماعت کو کچھ اہمیت نہ دی۔ راقم پی پی پی کا بانی رکن ہے اس لیے مجھے ان افراد کے نام یاد آرہے ہیں جو سب سے پہلے پی پی پی میں شامل ہوئے تھے۔ جن میں اشتیاق پان فروش، مجید برف فروش، سائیں ہرا گٹا فروش، خلیل رکشہ ڈرائیور، تاج ٹانگے والا، ملک ریڑھی والا کریانہ فروش جسے ہوچی منہ کہا جاتا لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا ملک منیر شامل تھے۔پی پی پی پاکستان کی پہلی عوامی جمہوری انقلابی نظریاتی جماعت تھی جو خود رو تھی۔ اسلام ہمارا دین ہے جمہوریت ہماری سیاست ہے سوشلزم ہماری معیشت ہے اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں پی پی پی کے بنیادی اصول قرار پائے۔ پارٹی کی بنیادی دستاویزات میں عوام سے عہد کیا گیا کہ سرمایہ داری ،جاگیرداری اور نوکر شاہی کو ختم کر دیا جائے گا اور استحصال سے پاک سماج تشکیل دیا جائے گا جس میں ہر شہری کو مساوی مواقع اور مراعات حاصل ہوں گی۔ 1960ء کی دہائی سوشلسٹ انقلاب کی دہائی تھی پاکستان کے عوام سوشلسٹ انقلاب کیلئے مکمل طور پر تیار تھے۔ پی پی ایک نظریاتی عوامی اور انقلابی جماعت تھی جو ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں سوشلسٹ انقلاب برپا کر سکتی تھی مگر افسوس ذوالفقار علی بھٹو نے انقلاب کی بجائے انتخاب کا راستہ اختیار کیا اور جس کے نتیجے میں اقتدار بھی حاصل کرلیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے وعدے کیمطابق انقلابی اصلاحات نافذ کیں۔مگر وہ سٹیٹس کو کی قوتوں کو کمزور نہ کر سکے۔ پاکستان کے سرمایہ داروں ،جاگیرداروں، تاجروں، ججوں، رجعت پسند سیاستدانوں اور مذہبی رہنماؤں نے امریکا سے ملی بھگت کر کے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے تختے تک پہنچا دیا۔ذوالفقار علی بھٹو نے موت کی کوٹھڑی میں اپنی زندگی کی آخری کتاب لکھی جس میں اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ملٹی کلاس پارٹی بنا کر آبرومندانہ حل تلاش کرنے کی کوشش کی مگر وہ اس میں ناکام ہوئے اور تاریخ کا فیصلہ یہ ہے کہ پاکستان کے نوجوان طبقاتی جدوجہد کرکے ریاست پر عوام کی بالادستی کو قائم کریں تاکہ پاکستان کے عوام کو انکے بنیادی حقوق مل سکیں اور عوام دشمن طبقات انکے راستے میں حائل نہ ہو سکیں۔
جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے بعد پی پی پی کے اکثر مرکزی لیڈر ذاتی مصلحتوں کا شکار ہوگئے۔پی پی پی کا کوئی رہنما جنرل ضیاء الحق کا مقابلہ کرنے اور عوام کی رہنمائی کرنے کیلئے آمادہ نہیں تھا۔ان حالات میں محترمہ بینظیر بھٹو نے پاکستان کے عوام اور پی پی پی کے کارکنوں کو قیادت فراہم کی۔ انہوں نے انتہائی دلیری اور جرأت مندی کے ساتھ جنرل ضیاء الحق کے طویل مارشل لاء کا مقابلہ کیا اور وہ 1988ء کے انتخاب میں پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ انہوں نے اپنی بساط اور اہلیت کے مطابق پاکستان کے عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ اسٹیٹس کو کے حامی بڑے مضبوط اور طاقتور تھے-محترمہ بینظیر بھٹو کے ہاتھوں میں مکمل اقتدار موجود نہیں تھا۔جنرل مشرف کے دور میں محترمہ بینظیر بھٹو کو اس وقت شہید کردیا گیا جب وہ تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہونے والی تھیں۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد پی پی پی کی قیادت آصف علی زرداری کے ہاتھوں میں آگئی۔آصف علی زرداری نے پی پی پی کو بنیادی منشور سے ہٹا دیا۔پی پی پی جو ایک قومی جماعت تھی وہ سندھ کی حد تک سکڑ کر رہ گئی۔پی پی پی کے نوجوان لیڈر چیئرمین بلاول بھٹو زرداری خدا داد صلاحیتوں کے مالک ہیں۔اگر پارٹی کے مکمل اختیارات انکے ہاتھوں میں آ جائیں تو وہ آنیوالے انتخابات میں بہت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔آج بھی پی پی پی کی اصل طاقت اور قوت پاکستان کے غریب مزدور کسان اور محنت کش عوام ہیں۔ جن کو بیدار منظم اور باشعور کر کے اور ان سے نیو سوشل کنٹریکٹ کا پختہ عہد کر کے پی پی پی بلاول بھٹو کی ولولہ انگیز قیادت میں ایک بار پھر اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کر سکتی ہے۔آجکل پاکستان میں عمرانی لہر چل رہی ہے جس کے ووٹ بینک میں مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے لوگ شامل ہیں۔ پاکستان کے غریب اور محنت کش عوام بے آواز اور لا وارث ہو چکے ہیں۔ بلاول بھٹو غریب عوام کی توانا آواز بنیں۔ پرانے نظریاتی جیالوں کا کل پاکستان کنونشن بلائیں پارٹی کے تاسیسی منشور کو بحال کریں اور غریب محنت کش عوام کو یقین دہانی کرائیں کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کے مشن کو ہر صورت مکمل کیا جائیگا۔ آل پاکستان کنونشن میں عوامی اعلامیہ جاری کیا جائے۔ پاکستان کے غریب عوام کے دلوں میں اگر امید ،اعتماد اور یقین کی شمع روشن کر دی جائے تو وہ آنے والے انتخابات میں سیاسی معجزہ کر دکھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔