• news

بدھ،5  جمادی الاوّل 1444، 30 نومبر 2022ء 

چاچا نہ کہو۔ نسیم شاہ کی ننھے مداح سے دلچسپ نوک جھونک 
بھئی بات تو سولہ آنے درست ہے۔ بھلا یہ کوئی عمر ہے نسیم شاہ کی کہ اس بالی عمریا میں کوئی انہیں چاچا کہہ کر پکارے، جبھی تو انہوں نے اپنے نوعمر مداح کو ایسا کہنے سے روکا۔ ویسے یہ کوئی سنجیدہ خبر نہیں ہنسی مذاق میں بات ہوئی تھی۔ رات گئی بات گئی۔ نسیم شاہ اس وقت پاکستان کرکٹ ٹیم کا ہاٹ کیک ہیں۔ لوگوں میں شاہد آفریدی کے بعد انہیں بہت پذیرائی مل رہی ہے۔ ویسے شاہین آفریدی بھی مقبولیت میں کسی سے کم نہیں وہ مقبولیت کی انتہا پر ہیں مگر وہ سنجیدگی کا لبادہ اوڑھے نظر آتے ہیں۔ ان میں ایک روایتی رکھ رکھائو اور دھیما پن ہے جس کی وجہ سے لگتا ہے کہ جلد لوگوں میں گھلنے ملنے والے نہیں۔ اس کے برعکس نسیم شاہ ہنسی مذاق اور کھلنڈری طبیعت کے مالک نظر آتے ہیں۔ جبھی تو جب وہ میچ کے دوران بائونڈری لائن پر کھڑے ہوتے ہیں تو کئی منچلے ان کے ساتھ جملے بازیاں کرتے ہیں۔ جس وہ ہنستے ہوئے جواب دیتے ہیں۔ خاص طور پر ان کی فین لڑکیاںتو انکی جانب میدان میں ہی فونز ، والنٹ، چینز، پھول، گھڑیاں اور نجانے کون کون سے گفٹ پیکٹ پھینک کر ان سے لگائو کا اظہار کرتے ہیں۔ اس سے پہلے ایسا شاید ہی کسی کے ساتھ ہوا ہو۔ اب ایسا بھی نہیں کہ نسیم شاہ ان سب سے منہ پھیرے رکھیں۔ وہ بھی ہنستے مسکراتے ان کے گفٹس حسب موقع سنبھال لیتے ہیں۔ یہ سب ان سے عوام کی محبت کا اظہار ہے۔ خدا کرے ہمارے یہ کھلاڑی یوں ہی اچھا کھیل پیش کرتے رہیں اور عوام ان کی محبتوں کے اسیر رہیں۔ دیکھ لیں لوگ آج بھی عمران خان، وسیم اکرم ، شعیب اختر، جاوید میانداد جیسے اپنے قومی ہیروز سے والہانہ محبت کرتے ہیں۔انہیں یاد کرتے ہیں۔ 
٭٭٭٭٭
تھائی لینڈ میں بندروں کی خاطر تواضح کا سالانہ تہوار شروع 
تھائی لینڈ دلچسپ روایات کی ایسی سرزمین ہے جہاں کی حکومت ان روایتی تہواروں کو دلچسپ بنا کر انہیں سیاحت کا درجہ دیتی ہے یوں دنیا بھر سے سیاح یہ روایتی میلے اور تہوار دیکھنے کے لیے تھائی لینڈ کا رخ کرتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ تھائی لینڈ میں بدھ مت کے پیروکاروں کی اکثریت ہے یہاں بڑے بڑے بدھ سٹوپا اور عبادتگاہیں بھی ہیں مگر یہاں کے رنگا رنگ تہوار اپنی مثال آپ ہیں۔ یہاں کا رقص ہو یا نائٹ کلبز، جوئے خانے ہوں یا عیاشی کے مراکز اس حساب سے بھی یہ ملک دنیا بھر میں سب سے زیادہ سیاحوں کی توجہ  کا مرکز بنا ہواہے۔ یہاں بڑے اہم تہواروں میں ایک تو ہاتھیوں کا تہوار ہوتا ہے جسے مذہبی تقدس بھی حاصل ہوتا ہے۔ پورے ملک میں اس روز ہاتھیوں کو نہلایا دھلایا جاتا ہے انہیں رنگ برنگے نقش و نگار سے مزین کر کے ان کی من پسند غذائوں سے ان کی دعوت کی جاتی ہے۔ اس روز ہاتھی سب کے ساتھی بنے لذیذ پھل اور کھانے کھاتے رہتے ہیں۔ دوسرا تہوار بندروں کا سالانہ میلہ ہوتا ہے جس میں پورے ملک میں بندروں کو جگہ جگہ شہر ہوں یا جنگل، جا کر ان کی من پسند چیزیں، پھل اور کھانے بڑے اہتمام کے ساتھ پیش کئے جاتے ہیں۔ سارے ملک میں خصوصی دسترخوان سجائے جاتے ہیں جن کی سجاوٹ دیکھنے والی ہوتی ہے۔ لوگ نہایت محبت کے ساتھ اس دن ڈرون کے نظریہ کے ماننے والے اپنے آبائو اجداد کی خاطر تواضح کرتے ہیں۔ جس کے نظریہ کے مطابق انسان بندروں کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ بہرحال یہ جملہ معترضہ تھا۔ تھائی لینڈ میں بندر اور ہاتھی بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ اس لیے ان کے ساتھ لوگوں کو خصوصی انسیت ہوتی ہے۔ اس وجہ سے اور کچھ مذہبی تقدس نے تھائی لینڈ میں ہاتھی اور بندر کو خاص مقام دیا ہوا ہے۔ 
٭٭٭٭٭
مقدمات کے اندراج پر وکلاء کا پولیس کے خلاف احتجاج، سیشن کورٹ کو تالے لگا دیئے
 وردی والوں اور کوٹ والوں کے درمیان کشمکش جاری رہتی ہے۔ کبھی کوٹ غالب آتا ہے‘ کبھی وردی۔ اصل میں ساری بات انا کی ہے کوٹ والے خود کوہر قاعدے قانون سے مبرا تصور کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک وہ خود قانون ہیں۔ ان کے نزدیک کسی کو حق نہیں کہ ان کو کسی غلطی پر ٹوکے یا روکے۔ اسی طرح وردی والوں کو گھمنڈ ہے کہ ان کی وردی کے سامنے کوئی ٹک نہیں سکتا۔ وہ جو چاہیں کریں۔ وہ قانون کے محافظ ہیں۔ اس تو تو اور میں میں میں اکثر یہ سینگ پھنسائے نظر آتے ہیں۔ ان کی اس باہمی خانہ جنگی کا سارا عذاب عدالتوں کو سہنا پڑتاہے۔ جہاں یہ کوٹ والے بڑے دھڑلے سے جا کر ججوں کے کمروں کو تالے لگا دیتے ہیں جس سے عدالتی کام ٹھپ ہوکر رہ جاتا ہے۔ گزشتہ روز بھی یہی ہوا، جب وکلاء نے اپنے ساتھی وکیلوں پر پولیس کی طرف سے مقدمات درج کرنے کے خلاف اپنا غصہ عدالتوں پر نکالا اور سیشن کورٹ میں جا کر تالہ بندی کردی۔ اب اس پر وہی کمہار اور کھوتے والا محاورہ یادآجاتا ہے۔ ظاہر ہے اتنا دم تو کوٹ والوں میں بھی نہیں کہ سڑکوں پر آکر وردی والوں کی طاقت کا سامنا کر سکیں۔ اس لئے وہ آسان جگہوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اب پولیس میں بھی اتنی جرأت نہیں کہ وہ عدالتوں میں کچہریوں میں داخل ہوکر تالے کھلوا سکے۔ کیونکہ وہاں وکیلوں کا پلہ بھاری ہوتا ہے۔ یوں اس ساری دھینگامشتی کی سزا عوام کو سائلوں کو بھگتنا پڑتی ہے۔ اور دور دراز سے آئے سائل خوار ہوتے ہیں۔ عدالت میں کمروں کی تالہ بندی کی وجہ سے جج حضرات کام نہیں کر پاتے۔ اس سلسلہ کا کوئی حل وردی اور کوٹ والوں کو بٹھا کر انتظامیہ کو نکالنا ہی ہوگا تاکہ مقابلے کی فضا ختم ہو۔
٭٭٭٭٭
اسحاق ڈار کی چینی کے نرخ برقرار رکھنے کی ہدایت 
ایک طرف شوگر ملز مالکان آئے روز چینی کی قیمت بڑھانے کے اعلانات کر کے عوام کے منہ میں کڑواہٹ گھولتے پھرتے ہیں۔ دوسری طرف وزیر خزانہ اسحاق ڈار ارشاد فرما رہے ہیں کہ چینی کی وافر مقدار موجود ہے۔ پیداوار بھی اچھی رہی ہے اس لیے چینی کی قیمت برقرار رکھی جائے۔ اب ان دو سانڈوں یعنی وزارت خزانہ اور شوگر ملز مالکان کی لڑائی میں بے چارے عوام پس رہے ہیں۔ تاجر اور دکاندار تو خوش ہیں کہ یہ دونوں آپس میں الجھتے رہیں اور انہیں من مانی کرتے ہوئے چینی کے نرخ ازخود بڑھانے کا موقع ملتا رہے۔ کسی نے کیا اور کب ایکشن لینا ہے۔ اس وقت بھی چینی کہیں 90 روپے اور کہیں 100 روپے کلو مل رہی ہے۔ کوئی ہے جو اس گراں فروش مافیا پر ہاتھ ڈالے۔ گڈ گورننس کا تقاضہ یہ ہے کہ پورے ملک میں چینی کے نرخ وہی ہوں جو سرکاری طور پر مقرر کئے جائیں۔ جو دکاندار یا تاجر اس کے برعکس مہنگا فروخت کرے اسے چینی کی بوری میں بند کر کے سمندر برد یا دریا برد کر دیا جائے تاکہ مچھلیوں کو میٹھا گوشت کھانے کو ملے۔ عوام نے تو کب سے دستر خوان سے میٹھا اٹھا دیا ہے اب تو شاذو نادر ہی کبھی کوئی ہلکی سی میٹھی چیز دستر خوان پر نظر آئے تو گھر والوں کی آنکھیں چمک اٹھتی ہیں۔ اسی چینی کی کمیابی یعنی مہنگی ہونے سے شاید عوام کے زبان سے مٹھاس چھن گئی ہے جبھی تو جہاں دیکھو لوگ کڑوا کڑوا بول رہے ہوتے ہیں۔ میٹھا میٹھا بولنے والے تو اب خواب ہو گئے ہیں۔ جسے دیکھو اس کی زبان زہر بھرے تیر چلاتی نظر آتی ہے۔ اس لیے حکومت چینی کے نرخ کم کر کے مٹھاس کو عام کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ (شوگر کے مریضوں سے معذرت کے ساتھ) ۔

ای پیپر-دی نیشن