• news

الزام کے دینے سے تو الزام نہ ہوگا


ملک میں تنقیدبرائے تنقید زبان زدِ عام ہے ، تنقید کے بھی دو پہلو ہیں فہم وفراست کے مالک مثبت تنقید کرتے ہیں جس میں اصلاح کا پہلو پنہاںہوتا ہے ، عقل سے عاری ہمیشہ منفی تنقید کریں گے مقصد ذاتیات پر حملہ کرنا ہوتا ہے ، معاشرے میں تنقید برائے تنقید کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، یہ قوموں کی تہذیب و تمدن کے زوال کی علامت ہے۔ یورپ اور امریکہ کے ابتدائی ادوار میں ان کا معاشرہ پستی میں گرا ہوا تھا جانوروں کی طرح ایک دوسرے کو قتل کر دینا بہادری سمجھا جاتا تھا عورتوں کی عصمت دری روز مرہ کا معمول تھا پھر اسی یورپ اور امریکہ نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بد لا اور معاشرے کو مہذب بنایا آج امریکہ اور یورپ دنیا میں مہذب قوموں میں شمار ہوتے ہیں ان ممالک سے فارغ التعلیم افراد کو دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کہ وہ تہذیب یافتہ ممالک سے تعلیم حاصل کیے ہوئے ہیں، ہمارے ملک پاکستان کے بے شمار لوگوں نے یورپ اور امریکہ کی اعلیٰ یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی جس میں عمران خان بھی ہیں جو کہ بغیر تحقیق اور سنی سنائی باتوں پرالزام لگانے میں ذرا بھی تردد نہیں کرتے ، چاہے وہ پینتیس پنکچر کا الزام ہو یا الیکشن میںدھاندلی ،کسی کا ثبوت فراہم نہیں کرسکے اور نہ ہی اس ربط کا نام اور نہ مکاں بتا سکے، بس الزام تراشی کرتے ہیں شیفتہ نے کہا تھا کہ
 جس سے ہے مجھے ربط وہ ہے کون، کہاں ہے
الزام کے دینے سے تو الزام نہ ہو گا 
 مقتدر سیاسی حلقوں ، تجزیہ نگاروں اور زبانِ خلق ِ خدا کے مطابق جب سے عمران خان سیاست میں وارد ہوا ہے ، ان کی الزام تراشی کی سیاست سے ملک میں انتشار پھیلا ہے نوجوان نسل تہذیب کے دائرے سے باہر ہو کر اخلاقیات کی دھجیاں اڑا رہی ہے ، ملک کی معاشی حالت اسی الزام تراشیوں کی وجہ سے ابتر حالت میں ہے ، عمران خان کے عزائم ان الزام تراشیوں کے پسِ پردہ بہت واضح ہوتے جارہے ہیں ماضی میں انکے بیانات اور انکے رویے کو دیکھتے ہوئے ملک کی با اثر شخصیات کی یہ رائے تھی کہ عمران خان مسلمانوں کے مقابلے میں یہودیوں کی حمایت کرتے ہیں انگلینڈ کے الیکشن میں مسلمان اُمیدوار صادق خان کے مقابلے میں یہودی امیدوار کی الیکشن مہم کے لئے خصوصاً پاکستان سے لندن گئے تھے ۔ عمران خان نے حکومت کو مشورہ دیا تھاکہ طالبان کا دفتر اسلام آباد میں کھولے ، اس بیان پر مرحومہ عاصمہ جہانگیر نے کہا تھاعمران خان سیاست میں ابھی بالغ نہیں ہوئے ان کو سیاست کا پتہ ہی نہیں جو سیاست کو گندہ سمجھتے تھے آج سیاست کرنے آگئے ہیں، یہ ہمیشہ ڈکٹیٹر کے ساتھ رہے، میں تو سوچتی ہوں جن لوگوں نے عمران جیسے کو اپنا فرنٹ مین بنایا وہ خود کیسے ہوں گے، مرحوم ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنے تجزیہ میں لکھا تھا ’’ اگر الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ عمران خان کی غلط بات نہیں مانتی تو اپنے صوبے پر توجہ دیں ، پشاور میں روز قتل و غارتگری کے واقعات ہورہے ہیں ،مخالفین کو گالیاں یا بُرا بھلا کہنے سے آپ کو ووٹ نہیں ملیں گے ، آپ آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ ہو اپنی تقریروں میں تمیز کا دامن نہ چھوڑیں ‘‘جنرل ( ر )اسلم بیگ کاکہنا تھا کہ امریکہ پاکستان کو سی پیک منصوبے کی سزا دینا چاہتا ہے مقصد جمہوریت کا بستر گول اور مرضی کی حکومت لانا ہے، عمران خان اس گیم کا حصہ ہے۔
عمران خان کی حکومت سی پیک کے معاملے میں شدید مخمصے کا شکار رہی ، سابق مشیر صنعت و تجارت عبدالرزاق دائود کا کہنا تھا کہ سی پیک معاہدوں سے پاکستانی کمپنیوں کو نقصان پہونچ رہا ہے لہٰذا سی پیک کو ایک سال کے لئے روک دینا چاہئے ، سی پیک کو سزا کا یہ پہلا بیان تھا عمران خان کی حکومت میں سی پیک منصوبے کو پوری منصوبہ بندی کے ساتھ نقصان پہنچایا گیا ، عمران حکومت کے اہم وزراء نے حکومت کے قیام کے ساتھ ہی سی پیک منصوبے کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیاتھا ، اقتصادی راہدری کے اربوں ڈالر کے منصوبے گزشتہ حکومت کے دور میں تعطل کا شکار ہوئے بلکہ چند منصوبوں پر کام ہی نہیں کیا گیا ، جب کہ سرکاری دستاویز کے مطابق سی پیک کے تحت لگائے گئے تکمیل شدہ پاور پلانٹ بھی عدم ادائیگی کی وجہ سے بند ہوگئے تھے ۔اقتدار میں آتے ہی عمران خان نے بلا کسی ثبوت کے سی پیک سے متعلق منصوبوں میں پچھلی حکومت پر بد عنوانیوں کے الزامات لگائے اور ان منصوبوں پر تحفظات کا اظہار کیا ، سی پیک معاہدوں اور منصوبوں کے مندرجات سے لا علم اور بنیادی فہم و فراست سے بعید عمران حکومت نے قریبی دوست چین کی ساکھ کو بھی مجروح کیا ، ابتدائی دنوں میں پی ٹی آئی حکومت نے سی پیک منصوبے کو الزام تراشیوں کی نوک پر رکھا ان الزامات کی بڑے پیمانے پر تشہیرنے عوام اور میڈیا کو گمراہ کیا اور چینی حکام ان الزامات اور خد شات کی مسلسل تردید کرتے رہتے تھے ۔ 
عمران خان ایسی حکومت کے خواہش مند ہیں جس میں ملک کے کسی ادارے یا فرد کا کوئی عمل دخل نا ہو وہ جو کہیں اسے سب آمنا و صادقنا تسلیم کریں جو نا کرے وہ چور ڈاکو اور کرپٹ قرار پائے اور اگر عمران خان کا بس چلے تو ساری قوم کو جیل میں بند رکھے ، بغیر تحقیق اور ثبوت کے الزام تراشی ملک کا کون سجن اور کون دشمن ہے؟ عصرِ حاضر کا لمحہء فکریہ ۔

ای پیپر-دی نیشن