• news

سیاسی مخاصمت اور نئے آرمی چیف کی تعیناتی


پاکستان میں صنعتی یازرعی انقلاب سمیت معاشی استحکام کاخواب سیاسی استحکام کے بغیرشرمندہ تعبیر نہیںہوسکتالہٰذاء سیاسی استحکام کاانحصار سیاستدانوں کے انفرادی واجتماعی رویوں پر ہے۔سیاستدانوں کوایک دوسرے کیلئے اظہارناپسندیدگی عوام کو ریاست اورسیاست سے مایوس کررہا ہے، کوئی معاشرہ سیاستدانوں کوریاست اورمعیشت کی قیمت پراحتجاجی سیاست کی اجازت نہیں دے سکتا۔سیاستدان ایک دوسرے کوپچھاڑنے کیلئے ملک اجاڑنے کے درپے کیوں ہیں۔بار بار اقتدارمیں آنیوالے سیاسی خاندانوں کے کمسن بچے بھی اربوں میں کھیلتے ہیں جبکہ پاکستان میں عام آدمی کوروزگار اوراس کے بچوں کوبنیادی تعلیم تک میسر نہیں۔ سیاستدانوں کوجس کام کیلئے ایوانوں میں بھجوایاجاتا ہے اس کیلئے وہ میدانوں کارخ کیوں کرتے ہیں، ایک طرف وزیراعظم شہبازشریف کو پوائنٹ سکورنگ کیلئے بیانات دینے کی بجائے اپوزیشن کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کی راہ ہموار کرناہوگی اوردوسری طرف انہیںاپنے وزراء کواشتعال انگیز بیان بازی سے روکنا ہوگا ۔متحدہ حکومت نے بھی عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی کامیابی یقینی بنانے کیلئے بلندبانگ دعوئوں سے آسمان سرپراٹھایا ہوا تھا ،جس اسحق ڈار کومعیشت کیلئے مسیحا کے طورپرپیش کیاجارہا تھا وہ بھی بری طرح ناکام ہوگئے اوران کے اپنے ساتھی مفتاح اسماعیل نے وزارت مالیات کی اہلیت اورصلاحیت بارے سنجیدہ سوالات اٹھادیے ہیں ۔پاکستان دیوالیہ ہونے کے دہانے پرکھڑا ہے لیکن وفاقی حکومت کی ترجیحات میں کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔وفاق میں وزیروں کی فوج ظفر موج ایک بڑاسوالیہ نشان ہے ۔وفاقی حکومت نے اپنے اتحادیوں کو نوازشات اورمراعات جبکہ عوام کو محرومیوں کے سوا کچھ نہیں دیا ۔
دوسری طرف اپوزیشن کوبھی صرف اپنی سیاسی پوزیشن عزیز ہے ،عمران خان عام آدمی کے ایشوز پرکوئی سنجیدہ بات نہیں کرتے ، ان کے مخصوص جملے اورحکومت پرسیاسی حملے عوام کی محرومیوں کامداوانہیں کرسکتے ۔میں سمجھتا ہوں استعفوں کی سیاست قومی ضمیر کی توہین ہے۔شاہراہیں بند اورشہریوں کو پریشان کرنے سے ملک میں عام انتخابات کابگل نہیں بجے گا۔کپتان میدان سے زیادہ ایوان میں متحدہ حکومت کامحاسبہ اورمحاصرہ کرسکتے ہیں ، اگر پی ٹی آئی ایوان کامیدان خالی نہ چھوڑتی تومتحدہ حکمران احتساب کے شکنجے سے نجات کیلئے نیب میں نقب لگانے میں کامیاب نہ ہوتے۔ پارلیمنٹ سے اجتماعی استعفوں کی بدترین سیاسی حماقت کے بعد پنجاب اور خیبرپختونخواکی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کاعندیہ عام آدمی کیلئے ناقابل فہم ہے، بہتر ہوگاعمران خان جذبات کی رومیں سیاسی فیصلے نہ کریں۔انہیں اپنے سیاسی اتحادیوں سے مشاورت کی اشد ضرورت ہے۔ کپتان یادرکھیں جس طرح کنواں صاف کرنے کیلئے اس میں اترنا پڑتا ہے اس طرح نظام کی تبدیلی بھی نظام کے اندررہ کرہوسکتی ہے،وہ ایوان سے باہر بیٹھ کربڑی بڑی ڈینگیں تومارسکتے ہیںلیکن اس طرح نظام میں ڈینٹ نہیں ڈال سکتے۔کپتان کی جذباتی سیاست اورمنتقم مزاجی نے پاکستان کوشدیدنقصان پہنچایا ہے، اگرموصوف اپنے حامی ارکان اور اتحادی جماعت کے ساتھ پارلیمنٹ کے اندر اپنا بھرپورآئینی کرادار ادا کرتے تویقیناانہیں نیب کے اختیارات کی بحالی کیلئے عدالت عظمیٰ کا دروازہ نہ کھٹکھٹاناپڑتا ۔راقم کے نزدیک عمران خان خود بھی ایمپورٹڈ حکومت کے خاموش سہولت کار ہیں ،اگر وہ بحیثیت وزیراعظم اناپرستی ،خودپسندی اورہٹ دھرمی کامظاہرہ نہ کرتے توشاید اس وقت اقتدارمیں ہوتے۔ انہوں نے اپنے اقتدارکے دوران بردباروں کی بجائے بزداروں ، واوڈوں کے ساتھ ساتھ سیاسی کنواروں اورسیاسی گنواروں سے مشاورت کواہمیت دی اورنتیجتاً انہیں اپنے خلاف عدم اعتماد کی کامیابی کے نتیجہ میں قبل از وقت وزارت عظمیٰ کے منصب سے محروم ہوناپڑا ۔عمران خان نے بحیثیت وزیراعظم ایساکیاکام کیا جس کی بنیادپروہ دوبارہ وزارت عظمیٰ کاخواب دیکھ رہے ہیں۔عمران خان کوعوام میں مقبول ہونے کازعم ہے لیکن وہ پاکستان کے سب سے بڑے آئینی منصب کیلئے معقول ہرگز نہیں ہیں۔
پاکستان کانیا سپہ سالاربھی اپنے پیشرو جنرل (ر) قمرجاوید باجوہ کی طرح جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہے۔پاک فوج کے سترویںآرمی چیف جنرل عاصم منیر کی اسلامیت ،انسانیت اور پاکستانیت قابل رشک ہے۔جنرل عاصم منیر کی قیادت میں پاک فوج ہرمیدان اورامتحان میں ہم وطنوں کی توقعات پرپورااترے گی۔ افواج پاکستان کے نڈر اورزیرک کمانڈر کاسنیارٹی کی بنیاد پرانتخاب نوید انقلاب ہے۔پاک فوج میں آئینی تبدیلی سے بے یقینی ختم جبکہ ملک میں سیاسی استحکام کی راہ ہموار ہوگی۔جنرل عاصم منیر اورجنرل ساحر شمشاد مرزا دونوں اپنے اپنے منصب کیلئے موزوں ترین ہیں۔امید ہے پاک فوج میں قیادت کی تقرری کیلئے سنیارٹی کی مثبت روایت آئندہ بھی برقراررہے گی۔پاک فوج کے سپہ سالار کی ایکسٹینشن کاباب مستقل طورپر بندکرنے میں عافیت ہے۔ سوشل میڈیا پربیٹھے مٹھی بھر شتر بے مہار افواج پاکستان کیخلاف زہرافشانی کاسلسلہ بندکردیں ورنہ عوام ا ن کامحاسبہ کریں گے۔ 

ای پیپر-دی نیشن