اسمبلیا توڑنے کی کو شش پر گورنر راج یا عدم اعتماد:حکومتی اتحاد
اسلام آباد (اپنے سٹاف رپورٹر سے) وفاقی وزیر داخلہ راناثنااللہ نے کہا ہے کہ عمران خان جب مری روڈ پر لانگ مارچ کا فضائی جائزہ لینے کیلئے ہیلی کاپٹر پر آئے تو نیچے لوگوں کی کم تعداد دیکھ کر پاگل خان کے کانوں سے دھواں نکل گیا اور کہا کہ کیا یہ ہیں دو صوبائی حکومتیں جنہوں نے پانچ پانچ لاکھ لوگ لانے تھے اس پر انہوں نے فیصلہ کیا کہ ان دونوں صوبائی حکومتوں کو فارغ کیا جائے، عمران خان فتنہ ہے جو ملک کو عدم استحکام کا شکار کرکے کسی حادثے سے دوچار نہ کردے اسے ہر طبقہ فکر کو روکنے کی ضرورت ہے بلوچستان اور سندھ کی حکومتیں صوبائی اسمبلیاں توڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں 20 دسمبر کو تحریک انصاف کی صوبائی حکومتوں نے اسمبلیاں توڑیں تو ہم بھی اس سے پہلے آئین کے تحت گورنر راج لگانے یا تحریک عدم اعتماد لانے کے اقدامات اٹھائیں گے دو صوبوں میں نگران حکومتیں بنیں گی اور جب عام انتخابات ہوئے تو پھر بلوچستان، سندھ اور مرکز میں نگران حکومتیں ہوں گی عمران خان لانگ مارچ میں بندے اکٹھے نہ ہونے پر حواس کھوبیٹھا ہے اس کی سیاست کا ایک ہی مقصد ہے کہ ملک عدم استحکام سے دوچار رہے وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ وہ جو کہہ دے وہ ہوجائے اسے اقتدار ملے تو گھٹیا کرپشن کرے پورا پنجاب فرح گوگی کی کرپشن پر چھوڑ دے بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعہ کی کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے ذمہ داری قبول کرنا تشویش کی بات ہے افغانستان کی حکومت کو اس پر تشویش ہونی چاہئے کیونکہ اس نے پوری دنیا سے وعدہ کررکھا ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا۔
وزیر داخلہ راناثنااللہ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت سیکیورٹی اجلاس میں وزیر اعلیٰ کے پی کے محمود خان نے شرکت نہ کی، کے پی کے میں دہشت گردی کے واقعات بھی باعث تشویش ہیں، بلوچستان اور کے پی کے کی حکومتیں اور قانون نافذ کرنے والے صوبائی ادارے اپنی ذمہ داریاں صحیح طور پر انجام دیں، اگر انہیں وفاقی حکومت کی مدد کی ضرورت ہے تو ہم پوری طرح تعاون کیلئے تیار ہیں۔ عمران خان لانگ مارچ کی ناکامی پر جلسے میں دو صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا اعلان نہیں کرسکتے اگر سسٹم میں نہیں رہنا تو پہلے قومی اسمبلی میں آکر تو استعفے دیں، اگر عمران خان نے واقعی حکومت سے الگ ہی ہونا ہے تو صدر مملکت کے عہدے ، سینٹ ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتوں سے بھی الگ ہوجائیں، پارلیمنٹ لاجز، منسٹرز کالونی کے گھر اسی طرح دبائے ہوئے ہیں اورانہیں قومی اسمبلی سے تنخواہیں جاری ہو رہی ہیں، وزیر داخلہ رانا ثنائ اللہ نے کہا کہ کے پی اور پنجاب کی حکومتیں توڑنے کی کوشش کی گئی تو دونوں صوبوں میں گورنر راج یا تحریک عدم اعتماد لاسکتے ہیں کیونکہ آئین میں درج وجوہات کے بغیر اسمبلیاں توڑناپارلیمنٹ ، جمہوریت اور آئین کی توہین ہے، حکومتیں تحلیل ہونے کی صورت میں دو صوبوں میں فوری الیکشن یا الیکشن عام انتخابات تک موخر کرنے سمیت دیگر امور پرغورکررہے ہیں ۔ عمران نے میرا نام لیکر کہتا تھا کہ تیار ہو جاﺅتمہیں کہیں چھپنے کے لئے جگہ نہیں ملے گی، مگراسلام آباد آنےکی جرات نہ کرسکے، انہوں نے کہا کہ عمران خان کا خیال تھا کہ پورا پنڈی اور اطراف سے لوگ آجائیں گے، جب وہ دن آیا تو ہماری بات سچ ثابت ہوئی۔ 20 ہزار لوگ تھے، عمران خان کو چاہیے تھا کہ وہ اس شرمندگی کا اعتراف کرتے ہوئے قوم سے معذرت کرتے اور واپس پارلیمنٹ میں آکر مسائل کا سیاسی حل نکالتے۔ راناثنااللہ نے کہا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ جب تک آرمی چیف تھے تو سب اچھا تھا ،ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد پی ٹی آئی نے جو حرکتیں کیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان میں شرم اور اخلاقی قدر ہی نہیں وہ تو کچھ لوگوں سے جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف پریس کرانا چاہتے تھے لیکن وہ انکاری ہوگئے۔، مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتوں کے درمیان مشاورت چل رہی ہے۔ہم الیکشن میں جانے کے لئے پوری طرح سے تیار ہیں، اسمبلیوں کی مدت پوری کرنا پہلے بھی اور اب بھی ہمارا موقف ہے ،خیبر پختونخوااور پنجاب میں اسمبلیاں توڑنے سے پہلے قومی اسمبلی کے استعفے منظوری کے لئے سپیکر کے پاس حاضر ہو جائیں تا کہ تنخواہیں، پارلیمنٹ لاجز ،منسٹر ہاﺅس اور مراعات بند ہوسکیں مسلح افواج پوری طرح سے تیار ہیں ، پریشانی کی بات نہیں ۔اگر بات آگے بڑھی تو کسی بھی قسم کے آپریشن میں تاخیر نہیں کی جائے گی۔ سیاسی عدم استحکام روکنے کی کوشش کی جائے گی، ان کی بلیک میلنگ کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا ۔ اگر دو صوبوں میں حکومتیں تحلیل ہوئیں توصرف انہی صوبوں میں الیکشن ہوں گے عام انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے۔ پی ٹی آئی کی طرف سے 20 دسمبر کو استعفوں کی بات کی گئی تو ہم 18 کو کوئی قدم اٹھاسکتے ہیں ۔ آئندہ عام انتخابات کی مہم کی قیادت محمد نواز شریف خود کریں گے ، وزیر داخلہ راناثنااللہ نے کہا کہ ارشد شریف سے متعلق فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ موصول ہوچکی ہے اس بارے شواہد اکٹھے کئے ہیں ۔لانگ مارچ میں ناکامی کے بعد عمران خان نے دو صوبوں میں حکومتیں تحلیل کرنے کی بات کی پہلے سے ایسا کوئی فیصلہ نہیں تھا ۔ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ اعظم سواتی کی گرفتاری پرانے کیس میں ہوئی ہے ایسا نہیں ہوا بلکہ ان کی گرفتاری نئی تقریر پر عمل میں لائی گئی ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا ٹی ٹی پی کے ساتھ کوئی باضابطہ مذاکرات نہیں ہورہے تھے اور نہ ہی کوئی باضابطہ معاہدہ ہوا ہے ہماری طرف سے واضح ہے کہ ہم آئین سے بالا کوئی بات تسلیم نہیں کریں گے، کوئٹہ دہشت گردی واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہیں، ٹی ٹی پی کی طرف سے دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنا تشویشناک اور قابل مذمت ہے ٹی ٹی پی کو ہمارے ہمسایہ برادر ملک افغانستا ن سے ہر قسم کی سہولیات میسر ہیں، ان کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے کہ ٹی پی پی اگر پاکستان کے اندر دہشتگردی کرے گی تو یہ خطے کے امن کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ پاکستانی عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ دہشتگردوں کو دوبارہ سر نہیں اٹھانے دیں گے ، تاثر دیا جارہا ہے کہ دہشت گردی قابو سے باہر ہوگئی ہے ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ امن و امان کی صورتحال پر وزیراعظم کے زیر صدارت اجلاس ہوئے لیکن وزیراعلی خیبر پختونخوا کو اپنی پارٹی کی جانب سے ان اجلاسوں میں شرکت کی اجازت نہیں ملی۔اصل میں ٹی ٹی پی میں ایک نہیں مختلف دھڑے ہیں ایک سے بات کرتے ہیں تو دوسرے لڑنا چاہتے ہیں جو لوگ امن چاہتے ہیں انہیں راستہ دیا جانا چاہیے اور جو لڑنا چاہتے ہیں ان کو بھر پور جواب دیں گے ۔راناثنااللہ نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ کوئی باضابطہ مذاکرات نہیں ہورہے تھے اور نہ ہی کوئی باضابطہ معاہدہ ہوا ہے۔
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) آصف علی زرداری نے کہا کہ ان کے پاس نا صرف پنجاب اسمبلی کو بچانے کیلئے ممبران کی کافی تعداد ہے بلکہ وہ کے پی کے اسمبلی میں بھی کوئی جادو چلا سکتے ہیں۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں زرداری نے کہا کہ ہم کے پی کے میں بھی تحریک عدم اعتماد لائیں گے۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ پی ڈی ایم کے پاس پختونخوا میں اتنی نشستیں نہیں کہ وہ عدم اعتماد میں کامیابی حاصل کر سکیں تو آصف زرداری نے کہا، ”تھوڑے دوست گمراہ ہیں، انہیں واپس لانا ہے۔“ سابق صدر نے یہ بھی کہا کہ قبل ازوقت انتخابات ملک یا جمہوریت کے لیے سازگار نہیں ہیں۔ اگر پی ٹی آئی اسمبلیاں تحلیل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر ہم ان اسمبلیوں میں دوبارہ الیکشن کرائیں گے، ہم دیکھیں گے کہ وہ کتنے ایم پی اے واپس اسمبلی میں لاتے ہیں۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ میرے پاس نمبرز ہیں اور نمبرز بھی بڑھا سکتا ہوں۔ چوہدری پرویز الہٰی سے کیا بات کریں گے اور بڑی چوائسز ہیں۔ چوہدری پرویز الہٰی سے ناراضی نہیں بلکہ دوریاں ہیں جن کو ختم کیا جاسکتا ہے، پہلے بھی ختم کیا تھا اور ان کو ڈپٹی وزیراعظم بنایا تھا جو پوسٹ ہی نہیں تھی اور ان کو 17 وزارتیں دی تھیں۔ اب انہوں نے خود دوری اختیار کی ہے تو دیکھیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں بہت چوائسز ہیں ان سے بہتر چوائسز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ قبل از وقت انتخابات ہمیں یا جمہوریت کے لیے سودمند ہوں گے۔ اگر وہ اسمبلیاں توڑیں گے تو ہم انتخابات لڑیں گے اور اگر نہیں توڑیں گے تو اپوزیشن کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پہلے کون سے اراکین خریدے ہیں بلکہ گفتگو ہوتی ہے کہ اگلے انتخابات میں ساتھ چلیں گے، ایسا نہیں ہوتا کہ 50 کروڑ لے لیں اور اسمبلیاں گرا دیں۔ میں نے کوئی بندہ نہیں خریدا اور ضرورت ہی نہیں پڑتی اور یہی فارمولا دوبارہ خیبرپختونخوا اور پنجاب میں بھی انتخابات سے پہلے ہوگا۔ آصف زرداری نے کہا کہ انتخابات اپنے وقت پر ہونے چاہئیں۔ نئی اسٹیبلشمنٹ سے کوئی دباو¿ نہیں آئے گا اور میرے خیال میں انہوں نے بات کی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست سے الگ ہوگئے، تو میں اس کو سراہتا ہوں۔ آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ میں ان کو نہیں جانتا، میں صرف جنرل عامر کو جانتا ہوں لیکن وہ چھٹے نمبر پر تھے، اگر دوسرے نمبر پر بھی ہوتے تو کچھ کرتا، میں چاہتا تھا لیکن وہ بہت نچلے نمبر پر تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی تعیناتی ادارے کی طرف سے ہوئی ہے اور سینئر ترین جنرل کو آرمی چیف بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے توسیع کے لیے مجھ سے کبھی بات نہیں کی، اگر وزیراعظم سے کی ہو تو پتا نہیں۔ پنجاب میں عمران کے مقابلہ کے لئے تےار ہےں۔ مےانوالی مےں نواب آف کالا باغ عمران خان کا مقابلہ کرےں گے۔ ہم ملک بچانا چاہتے ہیں۔ یہ میرا ملک ہے کہیں جانا نہیں چاہتا۔ نظریاتی اختلاف کے باوجود شہباز شریف کو نہیں چھوڑ سکتے۔ سائفر سمیت تمام الزامات بچگانہ تھے۔ کسی ملک سے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتے۔ باجوہ ڈاکٹرائن میں کچھ چیزیں اچھی اور کچھ بری تھیں۔ عمران خان کراچی میں پیپلز پارٹی کا مقابلہ نہیں کر سکے۔ ہم نے گاڑیوں کی قیمت ادا کر کے حاصل کیں، توشہ خانہ کیس میں مجھے سزا ہوئی، ابھی کیس ختم ہوا ہے۔ عمران خان کا احتساب نیب کرے گی۔ اگر نیب نے احتساب نہ کیا تو خود جواب دے گا۔ عمران خان چھپکلی سے ڈرتے ہیں۔ اتحادی حکومت میں کئی اختلافات ہوتے ہیں۔ ایسا طریقہ کریں گے کہ استعفے نہ آئیں، اسمبلیاں چلتی رہیں۔ عمران خان الیکشن سے پہلے گرفتار ہو سکتے ہیں۔ وہ الیکشن سے پہلے نااہل بھی ہو سکتے ہیں۔دوسری جانب عمران خان کی جانب سے اسمبلیاں توڑنے کے اعلان پر پی ڈی ایم جماعتوں نے پنجاب کی صورتحال پر قانونی ماہرین سے مشاورت کا فیصلہ کرلیا۔ علاوہ ازیں اسمبلیوں کی تحلیل کے معاملے میں پی ڈی ایم کی جماعتیں متحرک ہو گئیں۔ آصف زرداری نے تخت لاہور کیلئے کمان سنبھال لی۔ پی ڈی ایم جماعتوں نے آصف علی زرداری پر اعتماد کا اظہار کیا۔ پی ڈی ایم نے پنجاب کی صورتحال پر قانونی ماہرین سے مشاورت کا بھی فیصلہ کیا۔ آصف زرداری کو آئینی بحران سے نمٹنے کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ پی ڈی ایم نے متبادل آپشن کے طور پر وزیراعلیٰ سے بیک ڈور رابطے کا فیصلہ کیا۔ پرویز الٰہی اور عمران خان میں اسمبلیوں کی تحلیل پر اختلاف رائے پر بھی غور کیا۔ پنجاب کے معاملے پر مشاورت کیلئے پی ڈی ایم اجلاس جلد بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
پی ڈی ایم+زرداری