بھارتی اقلیتوں کے حقوق پر اقوام متحدہ و امریکہ کی رپورٹس
دنیا میں بھارت واحد ملک ہے جو اپنے نظام میں مکمل طور پر ذات پات کی تقسیم یعنی انسانوں کی مذہب کی بنیاد پر درجہ بندی‘ اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کے لئے الگ حقوق‘ اس کے برعکس نچلی ذات کے ہندوئوں کو حقوق دینے سے انکار کے باوجود خود کو عالمی سطح پر سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتے ہوئے ذرہ بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتا۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ دنیا بھی اسے بطور جمہوریت پسند ملک تسلیم کرتی ہے۔
ایسا ملک جہاں دلت یا اچھوتوں کو ہندو آبادی میں حصہ52 فیصد ہونے کے باوجود انہیں ریاستی یا مرکزی سطح پر الیکشن لڑنے کیلئے آئین میں دیئے گئے حق کے برعکس اس کی اجازت نہیں تو ایسا معاشرہ جمہوریت کا علمبردار کس طرح ہو سکتا ہے اور جب ہندو توا کے اقتدار میں نچلی ذات کے ہندوئوں پر انسانی حقوق کے سارے دروازے بند کر دیئے جائیں تو ایسے میں وہاں اقلیتیں کس قدر مشکل میں ہوں گی۔
اس کی تفصیل 9 نومبر 2022ء کو اقوام متحدہ انسانی حقوق کمیشن کی طرف سے جاری کی گئی رپورٹ میں درج ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کا نہ صرف ممبر ہے بلکہ اقوام متحدہ کی طرف سے انسانی حقوق سے متعلق جاری کئے گئے چارٹر اور اس کیلئے جاری کئے گئے تمام قوانین پر بطور ممبر کونسل اسکے دستخط بھی موجود ہیں لیکن زمینی حقائق کیمطابق وہاں اقلیتوں سمیت نچلی ذات کے حقوق بھی سلب کئے جا چکے ہیں۔ اگر چھوٹی ذات کے ہندوئوں کو اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کی عبادات گاہوں میں داخلے کی اجازت نہیں تو ساتھ ہی مسلمانوں کی مذہبی آزادی بھی ہندو انتہا پسندوں کی زد میں ہے۔ صرف مسلمان ہی نہیں سکھ اور عیسائی بھی خود کو بھارت میں غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔
رپورٹ میں نریندر مودی سرکار کی طرف سے نافذ کیے گئے شہریت کے نئے قوانین کو اپنے ہی شہریوں کی تذلیل قرار دیا گیا ہے۔ جس کا مقصد اقلیتوں کو باور کرانا ہے کہ وہ اگر بھارت میں سلامتی کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں تو پھر رام کو تسلیم کریں۔اسکے خلاف اقلیتیں احتجاج یا مزاحمت کریں تو فسادات برپا کر کے انہیں تشدد‘ ظلم اور قتل و غارت تک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کی گئی رپورٹ کی ابھی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ 22 نومبر 2022ء کو امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی نے امریکی وزارت خارجہ کو بھارت میں مذہبی آزادی کی بدترین صورتحال سے متعلق رپورٹ کرتے ہوئے تجویز دی کہ بھارت کو ملک میں مذہبی انتہا پسندی اور عدم برداشت کے تیزی سے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر خصوصی تشویش والے ملک کا درجہ دیا جائے۔
رپورٹ میں ایسے بہت سے واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے جن میں مسلمان اقلیت کو ذہنی اذیت سے دوچار کرنے کیلئے مسلم خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ اس طرح کے گھنائونے کھیل میں ملوث ہندو انتہا پسندوںکی حوصلہ افزائی کیلئے انہیں ہر طرح کا قانونی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ رپورٹ کیمطابق بھارت سرکار نے جانتے بوجھتے اس طرح کی قانون سازی کی ہے جو بھارت میں اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کیخلاف نفرت میں اضافہ کا سبب ہے۔
مذکورہ رپورٹ دسمبر 2021ء سے دسمبر 2022ء تک بھارت میں اقلیتوں کیلئے مذہبی آزادی اور جمہوری اقدار کے برخلاف ایسے بہت سے واقعات پر مبنی ہے جس کو کوئی بھی معاشرہ آج کے دور میں تسلیم نہیں کرسکتا۔ اسکے برعکس بھارت میں وزرا ء اور ممبران پارلیمنٹ اقلیتوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حق میں دلائل دیتے نظر آتے ہیں۔امریکہ میں اس سے قبل بھی بھارت میں مذہبی آزادیوں کے حوالے سے:
United States Commission of International Religous Freedom (USCIRF)
سالانہ اسی طرح کی رپورٹس امریکی وزارت خارجہ کے حوالے کرتا چلا آرہا ہے۔ ہر سال بھارت کو خصوصی تشویش والے ملک کا درجہ دینے کی تجویز بھی دی جاتی ہے لیکن امریکی وزارت خارجہ سوائے زبانی کلامی بھارت کو تنبیہہ کرنے کے ایسی کوئی بھی عملی کارروائی سے گریز کرتی ہے جسکے تحت اسے جنوبی ایشیاء ،خاص کر چین کے سلسلہ میں اپنے مفادات پر زد پڑتی نظر آئے۔
صرف امریکہ ہی کیوں دیگر تمام ممالک جو خود کو جمہوریت کا علمبردار اور انسانی حقوق کا دنیا میں سب سے بڑا محافظ قرار دیتے نہیں تھکتے۔ انہیں بھارت میں مسلمان اقلیت پر مظالم دکھائی نہیں دیتے۔ ان کو گجرات کی بلقیس بانو یاد نہیں آتی جسے 2002ء ہندو انتہا پسندوں کے گروہ نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کیلئے اس کی تین برس کی بیٹی سمیت گھر میں موجود تمام 13 رشتے داروں کو بے دردی سے قتل کر دیا۔ اتنے بڑے قتل عام پر مغربی میڈیا بھی چیخ اٹھا۔
عالمی سطح پر جاری مذمت سے پریشان ہو کر گیارہ ہندوئوں کو بھارتی اعلیٰ عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی اور 14 برس بعد نریندر مودی سرکار نے ان سب کو بے قصورقر اردے کر جیل سے رہا کرایا تو مغربی میڈیا نے اسے باعث صدمہ قرار دیتے ہوئے مسلمان خواتین کیلئے بھارت کو جہنم قرار دے دیا۔ اس طرح کے سینکڑوں واقعات ہیں جو بھارت میں مسلمان اقلیت کیخلا ف ہر سال کہیں نہ کہیں پیش آتے ہیںلیکن عالمی سطح پر جمہوریت کے علمبردار ممالک کے بھارت سے جڑے مفادات اور دولت مند مسلم ممالک کی بے حسی بھارت کو مزید حوصلہ دیتی ہے کہ وہ مسلمانوں کی مشکلات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ کرتا رہے۔ نہ ہی مقبوضہ جموں و کشمیر میں دم توڑتی انسانیت اعلیٰ اقدار کے حامل مغربی ممالک کو دکھائی دیتی ہے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ ان تمام جمہوری ملکوں کی حمایت سے کشمیریوں کو خود ارادیت کا حق دینے کیلئے منظور کی جانیوالی قراردادیں اقوام متحدہ کے سرد خانے میں پڑی مغربی تہذیب یافتہ قوتوں کا منہ چڑھا رہی ہیں جنہیں انڈونیشیا کو تقسیم کرکے مشرقی تیمور یا سوڈان کو دو لخت کرکے وہاں عیسائی ریاست کے قیام کیلئے ریفرنڈم کرانے کی فکر تو لاحق ہو جاتی ہے تاہم وہ مشرقی تیمور و جنوبی سوڈان کی عیسائی آبادیوں کو ووٹ کے ذریعے اپنی علیحدگی کو یقینی بنانے کیلئے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی الیکشن کرانے میں دیر نہیں لگاتے۔ تو پھر انہیں کشمیریوں کے اس جمہوری حق کو بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ وہ ووٹ کے ذریعے پاکستان یا بھارت سے الحاق کیلئے اپنی مرضی کا انتخاب کرسکیں اور اپنا وہ جمہوری حق حاصل کر سکیں جو اقوام متحدہ نے انہیں 1948 ء سے دے رکھا ہے۔