• news
  • image

پاکستان زندہ باد 

سیاسی سانس رواں رکھنے کیلئے حرکیات تو لازمی ہیں ۔ ایندھن نہیں ہوگا تو گاڑی کیسے چلے گی ؟ اور یہ کوئی ’’مال گاڑی‘‘ تو نہیں کہ ’’گدھے‘‘ بھی لادلیے اور کوئلے کی بوریاں بھی بھر دیں یہ انسانوں کی گاڑی ہے بلا تفریق تمام طبقات زندگی کی نماندگی ۔ ’’قلمکار‘‘ کو واقعی غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ سچی رائے کا اظہار کرنا چاہیے ۔ جب وہ طمع ۔ چمک ایک وقت کے پُر تعیش سرکاری مال کے کھانے کا قیدی بن جائے تو پھر ’’آمریت‘‘ بھی ’’جمہوریت‘‘ لگنا شروع ہو جاتی ہے۔  الحمدللہ میری پارٹی پاکستان ہے میر ا نظریہ وہی ہے جو اِس مُلک کی بنیاد بنا ۔ نہ کبھی قلم بِکا نہ عہدے کی پرواہ کی (آغاز سے اب تک کا لمز گواہ ہیں)بات شخصیات کی نہیں ۔ آواز کی ہے جو لمحہ موجود میں ہر پاکستانی کی آواز بن چُکی ہے۔ قوم ۔ بیرون ممالک غیر ملکی اُس نظریہ کے حامی ہیں جو ہر دل کی تمنا ہے۔ آزادی کیلئے لاکھوں لوگوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔ عصمتیں لٹوائیں ۔ گھروں ۔ دوکانوں کی الاٹ منٹ کیلئے نہیں ۔متحدہ برصغیر میں وہ زیادہ خوشحال تھے ۔ سکون کی زندگی گُزار رہے تھے ۔ مگر غلام تھے۔عزت کی بحالی اور غلامی کی آزادی واسطے آگ خون کے سمندر تیر کر پاک وطن آئے یہ اتنا آسان سفر نہیں مگر آزادی کا جذبہ ۔ لگن بالاتر رہا ۔ اُسکے بعد کی زندگی جو دیکھی تو وہ سفر آسان معلوم ہونے لگا ۔ خواب ٹوٹ گئے ۔ تعبیر بڑی بھیانک نکلی ۔ ہر گزرتا پل عوام کیلئے دشوار ترین ہوتا گیا اور اشرافیہ کیلئے سہل ترین ۔ جس کے پاس بھی روپیہ آیا اُس نے طاقت خرید لی۔ ایک عرصہ سے ایوانوں کو بھی خرید و فروخت کے مراکز میں بدل دیا ظالموں نے۔ دولت + طاقت اب ’’کارٹلز مافیا‘‘کی صورت غریب ممالک پر سریر آرائے اقتدار ہیں ۔ 
کچھ سالوں سے تو گھر سے باہر نکلتے ہوئے خوف محسوس ہوتا تھا ۔ سفید جہاز سائز گاڑیاں عقب میں کالی گاڑی میں اسلحہ بردار ؟ ہاتھوں سے ہٹو بچو کے اشارے کرتے ہوئے ۔ کوئی بھی آئین کھول لیں ۔ جمہوریت کی تعریف و تشریح پر چھپی انگنت کتابیں کھنگال ڈالیں کہیں بھی جمہوری چہروں میں غنڈہ گردی پڑھنے کو نہیں ملے گی ۔ کیا ہمیں ایسی جمہوریت چاہیے جو بدمست کر دے ۔ جو عوام سے غافل کر دے جو ’’اقتدار‘‘ کو ’’کرپٹ‘‘ کر دے ۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والے جب وقت آتا ہے اقتدار کی غلام گردشوں میں گھومنے پھرنے کا تو اپنے دیرنیہ ورکرز یا پارٹی کے ہمہ وقت دائیں بائیں کھڑے رہنماؤں کو آگے نہیں لاتے اُنھیں کوئی صدر ۔وزیراعظم نہیں بناتا۔ بہت کم مواقع دیکھے وہ بھی تب جب کوئی قانونی ۔ آئینی بندش کا سامنا ہوا۔اکثریتی وقت اپنے خاندان کو فرنٹ پر رکھا۔
20سال تو بہت طویل عرصہ ہے بس 10برس کے اخبارات پڑھ لیں ابھی تک وہ ردی نہیں ہوئے کیونکہ کچھ بھی نہیں بدلا نہ انداز نہ لُوٹ مار ۔ برقیاتی ٹِکرز ملا حظہ کر لیں ہنوز ہم بیوقوف ہیں ووٹ بینک ہیں ۔ ’’وہ‘‘ مفادات بینک ہیں ۔ ہم محکوم۔ وہ واقعی طاقتور کلاس ۔ سوچیئے آئین و قانون میں مقید اور ہر قسم کی بندشوں سے آزاد دو طبقات کا کیا مقابلہ ۔ جو جیت جائے وہ جمہوریت کی فتح ۔ جس کے حق میں فیصلہ آجائے وہ قانون کی بالادستی ۔ موروثی خاندانوں کے باپ، دادا، بیٹے ، بیٹیاں ہی جمہوریت کا نام ہے۔ اِس راہگزر میں کِسی غیر خاندان کا داخلہ ممنوع ہے۔ اِس راہگزر میں حق سچ کا اظہار جُرم ہے اس راہگزر میں عوام دوستی تقاریر کی حد تک عوامی مسائل کے حل کیلئے ارادہ کرنا ناممکن نیت عنقا ۔ وسائل کی بانٹ میں سب متحد ۔ مستعد ۔ ایک صفحہ پر۔
 75سالوں سے ہماری قسمتوں،مقدر، سیاست، معاشرت ،معیشت پر قابض اشرافیہ کی سوچ کیا ہے؟ یہی ناکہ جو ہماری ہدایات کے مطابق نہیں چلتا اُس کے پر کاٹ دو۔ جس کو بھی موقع مل گیا اقتدار کی گدی پر بیٹھنے کا ۔ اُسکی سوچ ہے۔ ہماری حکومت ہے اس لئے سب ادارے اچھے ۔ جو اپنے اعمال باعث اُتر گیا ۔ چونکہ ہماری حکومت نہیں اس لئے سب بُرے ۔یہ رویہ ۔ سوچ تشدد سے زیادہ بھیانک نتائج پیداکرتا ہے اور کر رہا ہے۔اگر ناسور کو ختم کرنے کی ٹھان لی ہے تو اِس عمل پر آرٹیکل6 لگا ٰ ئیے یہ رویہ ختم ہونا چاہیے۔اسی سوچ کی وجہ سے ملک کا آج بُرا حال ہے نہ سیاست قابو میں نہ معیشت ۔ یہ یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ کوئی بھی ادارہ یا پارٹی چاہے تعداد لاکھوں میں ہو کبھی بھی کروڑوں عوام کے سامنے کھڑے نہیں ہوسکتے اور نہ ہی تصادم کی سوچ ممکن ہے۔ عوامی خواہشات کو ایک حد تک دبانا ممکن تھا جو آج تک ہوتا رہا۔ تمام تر خرابیاں بھلے 75 سالوں کی ہیں ۔ 3ماہ‘کی ہیں یا گزشتہ 4سالوں کی ۔ سبھی کے موقف کو مان لیتے ہیں ۔ ایک ہی سبق ملتا ہے کہ سب اپنے متعین کردہ فرائض میں رہ کر کام کریں ۔ ’’آئین بالاتر ہے‘‘۔ قانون سب کیلئے یکساں ۔ یہ باتیں تقریروں سے نکال دیں اب لازم ہے کہ اِس کو ریاستی فیصلوں اور حکومتی امور کی بجا آوری میں نافذ کیا جائے ۔

 تجویر ہے کہ اسمبلیوں کی مدت 4سال کر دی جائے ۔ یہ تجویز نئی نہیں ۔ بہت پُرانی ہے مشرف صاحب کے دور میں دی تھی اور اِس پر کافی مرتبہ غور بھی ہوتا رہا مگر اب واقعی عمل کر ڈالیں ۔ ’’4سال ‘‘ کوئی کم وقت نہیں ۔ اصل چیز ہے کہ مدت پوری ہو۔ ہر حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے دی جائے اور تمام سیاسی جماعتیں اِس اصولی فیصلہ کو تسلیم کریں۔جس طرح دوسرے آئینی اداروں کی مدت مقرر ہے اِسی طرح آئینی طور پر ممکن بنا دیں کہ ہر حکومت اپنی مدت لازمی پُوری کرے بھلے سے احتجاج ۔ مظاہرے ہوں۔ آئین ِ پاکستان کے تحت تمام ادارے حکومتِ وقت کے ماتحت ہوتے ہیں۔ آئین ۔ قانون کے مطابق تمام عہدوں پر تقرر حکومت کی ذمہ داری ہے تو یہ نا انصافی تھی اور ہے کہ ’’مجاز اتھارٹی‘‘ کو ہر مرتبہ وقت سے پہلے ختم کر دیا جائے ۔ اِسکے تدارک پر ’’سب‘‘ کو فوراً سے پہلے مل بیٹھ کر توجہ دینی چاہیے ۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن