• news
  • image

جنرلفیض حمید کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ 

پاکستان اور بیرون ملک میں رہنے والے بہت سے لوگ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ فیض حمید نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کیوں لے لی۔ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے جنرل عاصم منیر کے چارج سنبھالنے سے ایک دن قبل ہی ریٹائرمنٹ لے لی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ جاتے جاتے انکے استعفیٰ کو منظور کر گئے ہیں۔ جنرل قمر جاوید نے جن آخری چند فائلوں پر دستخط کئے ان میں فیض حمید کا مستعفی بھی تھا۔ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا مستعفی ہونا اس بات کا اعلان ہے کہ اب عمران خان جنگ ہار گئے ہیں اور فیض حمید کو یقین ہو گیا ہے کہ اب عمران خان اپریل تک انکی ریٹائرمنٹ سے قبل کچھ ایسا نہیں کر سکتے جو ان کیلئے کوئی راستہ نکالے۔ فیض حمید نا امید ہو کر ریٹائر ہوئے ہیں۔ اگر فیض حمید کی ریٹائرمنٹ اور عمران خان کے لانگ مارچ کے اسلام آباد جانے کوایک ساتھ دیکھا جائے تو کہانی کافی سمجھ آتی ہے۔ دونوں طرف ایک جیسی ناامیدی ہی نظر آئیگی۔
کیا فیض حمید نئے جنر ل حمید گل تھے؟ وہ حمید گل کی طرح ایک سیاسی جنرل تھے۔ لیکن انکے اور حمید گل کے کام کرنے کے انداز میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ یہ درست ہے کہ دونوں وقت سے پہلے گھر گئے ہیں لیکن فرق ہے۔ فیض حمید کیا جنر ل پاشا تھے؟ وہ جنرل پاشا کی سیاسی پالیسی کو ضرور آگے لیکر چلے۔ انہوں نے جنرل پاشا کے پراجیکٹ عمران خان کو منطقی انجام تک پہنچایا۔ لیکن دیکھا جائے تو انہوں نے پراجیکٹ کو اس قدر خراب بھی کر دیا کہ آج ادارے کیلئے یہ پراجیکٹ درد سر بنا ہوا ہے۔ جنرل پاشا بھی عمران خان کا یہ انجام نہیں چاہتے ہونگے جو فیض حمید نے کرا دیا ہے۔ آج عمران خان جہاں کھڑے ہیں اس میں فیض حمید کا بہت ہاتھ ہے۔ وہ خود کو اس سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔ کیا فیض حمید جنرل ظہیر الاسلام تھے؟ کافی حد تک کہا جاسکتا ہے۔ جس طرح ظہیر الاسلام نے اپنے وقت کے آرمی چیف سے بالا بالا کام کئے فیض حمید نے بھی ایسا ہی کیا لیکن فیض حمید الگ ہی ٹائپ کے تھے۔ انہوں نے عمران خان کی وزارت عظمیٰ کو چلانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ عمران خان کے وزارت عظمیٰ سے نکلنے میں بھی فیض حمید کا ہی کلیدی کردار تھا۔ وہ عمران خان کی ادارے سے لڑائی کی بنیادی وجہ بن گئے۔ جس کی وجہ سے جنرل فیض حمید کا تو کوئی خاص نقصان نہیں ہوا۔ لیکن عمران خان کا بہت نقصان ہو گیا۔ فیض حمید کو چیف بنانے کے چکر میں عمران خان نے اپنی ساری سیاست داؤ پر لگا دی۔ آج دونوں گھر بیٹھے ہیں۔اور جن کو جیلوں کے گھن چکر میں پھنسوایا تھا وہ اقتدار میں آ چکے ہیں 
فیض حمید ہر کام کی حکمت عملی طے کرنے کی بجائے گنڈاسے کے استعمال پر زیادہ یقین رکھتے تھے۔ ڈنڈے سے کام کروانے میں انہیں کمال مہارت تھی۔ لیکن ساتھ ساتھ انکے بارے میں پاکستان کے سیاسی اکابرین یہ رائے بھی رکھتے تھے کہ وہ وعدہ خلاف بھی ہیں۔ انہوں نے سیاسی اکابرین سے اپنی مرضی کا کام کروانے کیلئے پہلے وعدے کیے پھرمنحرف ہو گئے۔ اس لیے آخری دنوں میں پاکستان کے سیاسی اکابرین نے انکی بات پر اعتبار کرنا چھوڑ دیا تھا۔ جس کی وجہ سے ان کو ڈنڈے اور گنڈاسے کا زیادہ استعمال کرنا پڑتا تھا۔ فیض حمید کے بارے میں جب وہ ڈی جی آئی ایس آئی تھے ایک بڑے سیاست دان نے کہا کہ ہم 40 سال سے سیاست میں ہیں، بہت ڈی جی آئی ایس آئی دیکھے ہیں لیکن بات سے پھرنے والا یہ پہلا دیکھا ہے۔ ورنہ ڈی جی کی بات پتھر پر لکیر ہوتی تھی۔ وہ نہ تو کر دیتا تھا لیکن ایک بار بات طے ہو گئی تو طے ہوتی تھی۔ لیکن فیض حمید نے نیا کلچر دیا وہ وقت نکالنے کو اپنی مہارت سمجھتے تھے۔ وہ ڈنڈے اور جھوٹ کا بیک وقت استعمال کرتے تھے۔ شاید ان سے پہلے کسی ڈی جی نے ایسا نہیں کیا اسی لیے وہ سب سے مختلف ہیں۔
فیض حمید کے چیف بننے کی تمنا نے ان کا کوئی خاص نقصان نہیں کیا ہے۔ وہ لیفٹیننٹ جنرل تک پہنچ گئے تھے۔ لمبا عرصہ پاکستان کی سیاست کے بے تاج بادشاہ رہے۔ وقت کا وزیر اعظم عمران خان ان کی کٹھ پتلی تھا۔ فیض حمید دن کہتے تو عمران خان بطور وزیر اعظم دن کہتے ۔ تمام فیصلے عمران خان کی طرف سے فیض حمید ہی کرتے تھے۔ کسی بھی ڈی جی آئی ایس آئی کو اتنا ڈمی وزیر اعظم نہیں ملا۔ فیض حمید نے عمران خان کو اپنی انگلیوں پر نچایا اور فیض کی انگلیوں پر ناچتے ناچتے ایک دن عمران خان انگلی سے گر گئے۔ شاید فیض حمید کیلئے عمران خان ایک کھلونا ہی تھے جس سے انہوں نے دل بھر کر کھیلا پھر کھیلتے کھیلتے ٹوٹ گیا تو کوئی خاص نقصان نہیں ہوا۔ دکھ ضرور ہوا۔ عمران خان کو فیض حمید کی انگلیوں پر ناچنے کی اتنی عادت تھی کہ اس کیلئے انہوں نے اپنا اقتدار اور سیاست قربان کر دی ہے۔ ویسے تو عمران خان کو بنانے والے جنرل پاشا کو بھی انکے وزیر اعظم بننے کے بعد کچھ نہیں ملا تو فیض حمید کو کیا ملے گا۔ ان کا خاندان عمران خان کی سیاسی جماعت میں شامل ہو چکا ہے۔ سارے پاکستان کی ٹکٹیں بانٹنے والے فیض حمید اب اپنے خاندان کیلئے ٹکٹیں مانگا کرینگے۔
فیض حمید کی ریٹائرمنٹ کے بعد عمران خان اور ان کے ساتھی شاید اب سوچیں کہ ایک فیض کیلئے ہم نے اپنا کتنا نقصان کر لیا ہے۔ ایک فیض کی وجہ سے اپنے سب دروازے بند کر لیے ہیں۔ اور وہ بھی گھر چلا گیا ہے۔ تحریک انصاف ضرور سوچے گی کہ فیض نے ان کی سیاست کو کتنا فائدہ اور کتنا نقصان پہنچایا ہے۔
جس نئے چیف کے بننے سے قبل فیض حمید ریٹائرمنٹ لیکر نکل گئے ہیں، اگر تحریک انصاف نے اپنے معاملات اچھے طریقے سے چلانے ہیں تو اسے فیض حمید سے دور رہنا ہوگا۔ جتنا وہ فیض حمید کو قریب رکھیں گے اتنا ہی وہ نئی فوجی قیادت سے دور ہوتے جائینگے۔ عمران خان اب فیض حمید اور اپنی سیاست کو اکٹھے نہیں چلا سکتے۔ فیض حمید اور عمران خان کی علیحدگی کا قصہ بھی شروع ہوچکا ہے۔ عمران خان کو سمجھنا ہوگا کہ فیض یاب ہونے کے چکر میں بہت نقصان ہو گیا ہے مزید نہیں کیا جا سکتا۔ فیض حمید گھر چلے گئے ہیں۔ان گنت داستانیں چھوڑ گئے ہیں۔ ان کیلئے گوشہ نشینی ہی بہتر ہے۔ حساب برابر کرنیوالوں کی ایک لمبی لائن ہے۔ اب وہ کمزور وکٹ پر ہیں۔ یہی حقیقت ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن