جمعۃ المبارک،7 جمادی الاوّل 1444، 2 دسمبر2022ء
پٹرول و ڈیزل کی قیمتیں برقرار‘ مٹی کا تیل اور لائٹ ڈیزل کی قیمت میں کمی
کتنے دکھ کی بات ہے یہ دوسرا مہینہ ہورہا ہے‘ پٹرول کے صارفین اس انتظار میں ہیں کہ کب ان کی مہربان حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا مژدہ جانفرا سناتی ہے۔ مگر افسوس ان کے ارمان یونہی دم توڑ تے رہے۔ کسی نے سچ کہا تھا؎
ہر پھول کی قسمت میں کہاں ناز عروساں
کچھ پھول تو کھلتے ہیں مزاروں کیلئے بھی
یہاں بھی یہی ہورہا ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں کمی کے باوجود گزشتہ دو ماہ سے حکومت کڑک مرغی کی طرح پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو پروں تلے دابے بیٹھی ہے۔ عالمی منڈی میں کمی کے فائدہ کی ہوا تک صارفین کو لگنے نہیں دے رہی۔ یوں ان کے دل جل رہے ہیں اور لبوں پر بددعائیں مچل رہی ہیں۔ کیا کوئی اتنا کٹھور بھی ہوتا ہے۔ وزیراعظم نے بڑی چائو کے ساتھ اسحاق ڈار کو وزیرخزانہ بنایا تھا مگر افسوس اس بار نہ وہ ڈالر کو کنٹرول کر سکے نہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں خاطرخواہ کمی لا سکے۔
اب کوئی انہیں کچھ بھی کہے‘ عوام کو ان کی شکل دیکھ کر غصہ آنے لگا ہے جو براہ راست حکومت پر اتر رہا ہے۔ نجانے کیوں اس بار شہبازشریف بھی عوامی مسائل سے لاتعلق نظر آرہے ہیں۔ اس سجن بے پروا قسم کے وزیراعظم سے تو وہ عوام دوست وزیراعلیٰ ہی اچھے تھے۔ کم از کم لوگوں کو پتہ تو تھا کہ وہ عوام دوست بھی ہیں۔ اس بار تو عوام:
تیری نگاہ میں اک رنگ اجنبیت تھا
کس اعتبار پہ ہم کھل کے گفتگو کرتے
والی گومگو کی کیفیت میں مبتلا وپریشان نظر آرہے ہیں۔
٭٭……٭٭
امریکی شہر ڈکسن میں گلہری نے آدھے شہر کی بجلی بند کردی
حیرت کی بات ہے امریکہ میں جانور بھی ٹیکنالوجی میں اتنے ماہر ہوگئے ہیں کہ ایک عدد گلہری نے بجلی گھر میں گھس کر آدھے شہر کو بجلی کی فراہمی بند کر دی۔ یہ تو ایک دلچسپ تاریخی ریکارڈ ہے۔ جو کام ہمارے ہاں بجلی فراہم کرنے کی ذمہ دار کمپنیاں کروڑوں روپے تنخواہ دیکر اپنے نااہل‘ ناتجربہ کار ملازموں سے کرواتی ہیں‘ وہی کام امریکہ میں ایک ننھی سی گلہری نے مفت میں کر دیا۔ اب ہماری بجلی کی فراہمی کی ذمہ دار کمپنیوں کو چاہئے کہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور اپنے مفت بر ملازمین کی چھٹی کرا کے امریکہ سے چالاک ٹیکنالوجی اور تکنیکی امور کی ماہر گلہریوں کو منگوانے کی تیاری کریں۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ کروڑوںکی بچت ہوگی‘ بے کار ملازمین کی فوج ظفر موج سے نجات ملے گی۔ اس کے علاوہ لوڈشیڈنگ کا سارا الزام گلہریوں پر لگا کر یہ محکمے خود کو عوام کے غیض و غضب سے بھی بچا لیں گے۔ امید ہے یہ محکمے اس مفت مشورے پر ضرور غور کریں گے۔ آگے ان کی مرضی کان دھریں یا نہ دھریں۔ ویسے بھی تو ماضی میں چوہوں کو موردالزام ٹھہرایا جاتا تھا کہ انہوں نے بجلی کی تاریں کتر لیں۔ الماریوں میں پڑے نوٹ اور ضروری کاغذات کتر لئے۔ اب اس کارخیر میں اگر گلہری کو بھی شامل کر لیا جائے تو کیا ہرج ہے۔ ویسے بھی بدصورت کریہہ المنظر چوہوں کی نسبت یہ گلہریاں نہایت خوبصورت ہوتی ہیں۔ اگر کبھی موقع ملے تو باغوں میں جا کر ان سے شناسائی اختیار کر لیں۔ انہیں تھوڑا سا دانہ پانی ڈالیں‘ کچھ دیر خاموش بیٹھ کر ان کی حرکات و سکنات پر غور کریں۔ آپ دیکھیں گے یہ چند روز میں آپ سے مانوس ہو جائیں گی۔ اب اس کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ ہم اپنی پاکستانی گلہریوں کو بجلی کا بریک ڈائون کرنے کیلئے استعمال کرنے کی تربیت دیں۔ ویسے مشورہ برا بھی نہیں مگر آج کل لوگوں کے پاس اتنا وقت ہی کہاں ہے کہ وہ پارک میں جا کر درختوں اور وہاں کے جانوروں کے ساتھ کچھ وقت گزار لیں۔
٭٭……٭٭
اداروں کے خلاف بیان‘ پرویزالٰہی کا اپنی ترجمان مسرت جمشید چیمہ کو شوکاز نوٹس
بھلے بھئی بھلے۔ یہ ہوتی ہے سیاست‘ وہ بھی ہماری سیاست۔ اگر وزیراعلیٰ پنجاب اپنی ترجمان کو اداروں کے خلاف بیان دینے پر شوکاز نوٹس جاری کر سکتے ہیں تو پھر عمران خان کااپنے پارٹی ترجمان فواد چودھری کے بارے میں کیا خیال ہے جنہوں نے گزشتہ روز امریکی سفیر ڈونلڈلو سے ملاقات کی۔ فواد چودھری کے قائد کھلے عام جلسوں میں کاغذ لہرا لہرا کر امریکہ پر اپنی حکومت گرانے کیلئے سازش کرنے کا الزام لگاتے نہیںتھکتے تھے اور پی ٹی آئی کے ورکر سے لیکر عہدیدار تک عمران خان کی جی میں جی ملا کر جی حضوری کا حق ادا کرتے ہیں‘ مگر فواد چودھری کے خلاف کوئی ایکشن نہیں ہوا۔ لگتا ہے وزیراعلیٰ پنجاب نہایت محتاط طبیعت کے مالک ہیں۔ وہ کسی مقتدر حلقے کے ساتھ خواہ مخواہ متھا لگانے سے گریزاں رہتے ہیں کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اپنے سے زیادہ طاقتور کے ساتھ بلاوجہ پنجہ لڑانے میں اپنا ہی نقصان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب گزشتہ روز ان کی ترجمان مسرت چیمہ نے ان کی ترجمانی سے آگے بڑھ کر تحریک انصاف کی ترجمانی کا حق ادا کرنا شروع کیا اور اداروں پر بہتان تراشی شروع کی تو وزیراعلیٰ پنجاب نے فوری ایکشن لیتے ہوئے ان کی گوشمالی کی اور کہا کہ اداروں کے خلاف بیان پنجاب حکومت کی پالیسی نہیں ہے۔ اب مسرت چیمہ صاحبہ غور کریں کہ کس کی حکومت ہے۔ اصل میں تو حکومت پی ٹی آئی کے دم قدم سے قائم ہے۔ اس پر کہیں تحریک انصاف والے وزیراعلیٰ پرویزالٰہی کے دشمن نہ بن جائیں۔ وہ جس کے دشمن بنتے ہیں‘ اسی لمحے چور ڈاکو‘ کرپٹ‘ بیماری اور نجانے کیا کیا کہتے ہوئے اسکے ترانے بنا لیتے ہیں۔
٭٭……٭٭
ماتھے پر احمق‘ چور لکھوانے والا چوتھی بار گرفتار
یہ ہوتی ہے استقامت۔ یہ ہوتی ہے اپنے پیشے سے محبت۔ اس کم بخت چور کو ہی دیکھ لیں۔ اس نے غلط پیشہ اپنایا تھا مگر بار بار جوتے پڑنے کے باوجود وہ اسے چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔ یہ ہوتی ہے مرزا غالب والی وفاداری بشرط استواری۔ اس نوجوان کو چوری کے پیشے سے اتنی محبت ہے کہ اس نے اپنی پیشانی پر ’’میں چور اور احمق ہوں‘‘ کندہ کروایا ہوا ہے۔ یہ بھی عجب بات ہے۔ آج کل دنیا بھر میں بدن پر ٹیٹو کھدوانے کا رواج عام ہے۔ جیسے کچھ عرصہ قبل تک ہمارے ہاں بھی برصغیر کے دیگر علاقوں کی طرح خواتین چہرے پر خال (تل) بنواتی تھی۔ ٹھوڑی پر یا ماتھے پر بھنوئوں کے درمیان کوئی نشان کھدواتی تھیں تاکہ خوبصورت لگیں۔ عرب و عجم میں رواج عام تھا مگر آج کل جس طرح عجیب و غریب ٹیٹو کھدوائے جاتے ہیں انہوں نے سارے حسن کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ بہرحال بات ہورہی تھی اس ماڈرن چور کی۔ جو خیر سے چوتھی مرتبہ چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا ہے۔ اس نے 2017ء میں چوری کرتے ہوئے پکڑے جانے پر ’’میں ایک چور اور احمق ہوں‘‘ والی یہ عبارت ماتھے پر کھدوائی۔ اب چوتھی بار پکڑے جانے پر لگتا ہے اس نے جو کچھ درج پیشانی کیا ہے‘ وہ درست ہے۔ ورنہ اتنی مختصر مدت میں چوتھی بار پکڑے جانے والا کوئی ماہر چور تو ہو ہی نہیں سکتا۔ اب اس کے چور اور احمق ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی۔