ولولہ انگیز اور کرشماتی قیادتیں
خبروں کے چور بازار میں اس خبر کا بھاﺅ خاصا تیز جا رہا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے اسمبلی توڑنے سے انکار کر دیا ہے، باوجود اس کے کہ انہوں نے چند روز قبل یہ اعلان کیا تھا کہ عمران خان نے حکم دیا تو آدھا منٹ نہیں لگاﺅں گا اور اسمبلی توڑ دوں گا۔
یہ خبر غلط ہے۔ فی الحال اتنی خبر سچ ہے کہ پرویز الٰہی نے اسمبلی توڑنے کے لیے مہینے ڈیڑھ مہینے کی مہلت مانگی ہے اور کہا ہے کہ اس عرصے میں ہم ترقیاتی منصوبوں کی رفتار تیز کر دیں گے جس سے الیکشن میں ہمیں فائدہ ہو گا۔ اس حساب سے پرویز الٰہی کا آدھا منٹ فی الحال برابر ہے ڈیڑھ مہینے کے جس کے بعد اس آدھے منٹ میں ایک ڈیڑھ منٹ اضافہ ہونے کا امکان بھی موجود ہے۔ ضیاءالحق مرحوم کی تین مہینے والی گھڑی یاد آ گئی جو بعدازاں پھیل کر تاحیات ہو گئی تھی ۔ یہ تاحیات کا سفر پھر 1988ءمیں مکمل ہوا۔
__________
خبر تو یہ بھی ہے کہ خود پی ٹی آئی کے اندر بھی گھڑی گھڑی یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ خان صاحب کو کیا ہوا۔ وفاقی حکومت کی چھٹی کرانے کے بجائے ہمی سے استعفے مانگ لئے۔ کل ہی ایک چینل پر تبصرہ نگار صاحب فرما رہے تھے کہ سپیکر کے پاس 186 استعفے موجود ہیں، اسمبلی نہ توڑی جا سکی تو وہ آدھے منٹ میں یہ سارے استعفے منظور کر لیں گے۔
تحقیقات پر پتہ چلا کہ سپیکر کے پاس اس وقت تک ایک بھی استعفیٰ موجود نہیں ہے۔ صرف تین ارکان اسمبلی (بشمول ایک صوبائی وزیر) نے استعفے دینے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن محض اعلان، سپیکر کو استعفے نہیں بھیجے۔ شاید سپیکر ان استعفوں کی غائبانہ منظوری دیں گے۔ غائبانہ جنازہ جیسے ہوتا ہے، ویسے ہی۔
__________
پرویز الٰہی نے کچھ دوسرے امور پر بھی عمران خان سے اصولی اختلافات ظاہر کئے ہیں۔ مثلاً وہ ”قائد“ سے اجازت لئے بلکہ بتائے بغیر ہی نئے آرمی چیف کو مبارکباد دینے پہنچ گئے یعنی مقتدی امام سے ایک قدم آگے۔ امام صاحب نے اگلے روز مبارکباد دی، یعنی امام مقتدی سے ایک قدم پیچھے۔
ایک اختلاف عمل تو یہ ہوا، دوسرا یہ کہ سبکدوش آرمی چیف کے خلاف پی ٹی آئی کی طوفانی مہم بھی انہیں پسند نہیں۔ باجوہ صاحب کے لیے ناقابلِ اشاعت الفاظ نشر کرنے پر انہوں نے اپنی ترجمان اور پی ٹی آئی کی سرگرم رہنما مسرت جمشید چیمہ صاحبہ کو اظہار وجوہ کا نوٹس بھی جاری کیا اور باجوہ صاحب کی شاندار قومی خدمات پر انہیں خراج تحسین بھی پیش کیا۔ یہ اتنا شاندار خراج تحسین کہ اتنا تو تب بھی پیش نہیں کیا تھا جب باجوہ صاحب چھڑی بدست تھے۔
پتہ نہیں عمران خان صاحب کو پرویز الٰہی کی حالیہ حرکات و سکنات پسند آئیں کہ نہیں!
__________
چودھری صاحب عمران خان کی ولولہ انگیز قیادت کے نہایت شدید قدردان ہیں۔ خود ان کی اپنی قیادت بھی کم ولولہ انگیز نہیں۔ کامل علی آغا سے تصدیق کی جا سکتی ہے۔ ایک ٹی وی پروگرام میں، کچھ عرصہ پہلے انہوں نے واشگاف انداز میں کہا تھا کہ پوری قاف لیگ پرویز الٰہی کی ولولہ انگیز قیادت میں متحد ہے۔ یہ تب کی بات ہے جب چودھری شجاعت سے انہوں نے راستے تبدیل کر لئے تھے ۔ یاد آیا، ایک صاحب کی قوت سماعت کمزور تھی، پروگرام دیکھ کر مجھ سے پوچھنے لگے یہ بلبلہ انگیز قیادت کیا ہوتی ہے۔ انہیں بڑی مشکل سے بلبلے اور ولولے کا فرق سمجھایا۔ صرف صوتی فرق۔ معنوی نہیں، اس لئے کہ معنے تو خود مجھے بھی معلوم نہیں۔
بہرحال، کل ظہور الٰہی روڈ کے آس پاس ایک نیا نعرہ دیکھا۔ ہم چودھری مونس الٰہی کی ولولہ انگیز قیادت پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ منجانب فلاں اور فلاں۔
ماشاءاللہ، پنجاب حکومت کی صورت میں ہمیں تین تین ولولہ انگیز قیادتیں اور سیادتیں بلکہ سعادتیں مل گئی ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون بے چاری ایک بھی ولولے سے محروم ہیں۔
__________
خیر، قاف لیگ کی ولولہ انگیز قیادت کو کسی جاں نثار نے مشورہ دیا ہے کہ اسمبلی توڑنے سے پہلے خان صاحب سے اقرار نامہ لکھوا لیں کہ نئے انتخابات کے بعد بھی وزارت اعلیٰ پرویز الٰہی کو ہی ملے گی۔ کیا خان صاحب ”اقرار نامہ لکھ کر دیں گے؟۔ کیونکہ شہباز گل کی صورت میں ایک عدد صوبائی ولولہ انگیز قیادت ان کے پاس بھی موجود ہے۔ بعض احباب کا کہنا ہے کہ فواد چودھری بھی ولولہ انگیز قیادت کی تعریف پر پورا ترتے ہیں۔
__________
میڈیا کی سوشل منڈی میں یہ خبر بھی گرم ہے کہ آرمی چیف پروٹوکول ضابطوں کے تحت جہاں وزیر اعظم سے ملے، وہاں صدر مملکت سے بھی انہوں نے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں صدر صاحب نے آرمی چیف کی ٹیلی فونک بات چیت اپنے قائد عمران خان سے کرانے کی کوشش کی لیکن معزز مہمان نے انکار کر دیا۔
اس بات کو لے کر صدر پر سخت تنقید کی جا رہی ہے کہ انہوں نے آئینی عہدے کی لاج نہیں رکھی، سیاسی مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی۔
نادان لوگ ہیں، بلاجواز تنقید بنا تحقیق کے کر رہے ہیں۔ اتنا بھی نہیں جانتے کہ صدر صاحب محض جانچ کر رہے تھے کہ نئی عسکری قیادت غیر سیاسی ہے کہ نہیں اور وہ اس جانچ میں پوری اتری۔
کیا جانچ کرنا غلط ہے؟ صدر صاحب کی نیک نیتی کی تو تعریف کی جانی چاہیے تھی!
__________
عمران خان صاحب نے پرویز الٰہی کی حاضر سروس مبارکباد کے ایک روز بعد نئے چیف کو غائبانہ مبارکباد دی اور انہیں قائد اعظم کا وہ خطاب یاد دلایا جس میں قائد اعظم نے ہر قسم کی بیوروکریسی کو غیر سیاسی رہنے کی تلقین کی تھی۔
نئی عسکری قیادت پہلے ہی قائد کے اس فرمان کا احترام کرنے کا یقین دلا چکی ہے، اس کی یاددہانی کچھ غیر ضروری سی لگی۔ خیر، اصل بات کچھ اور لگتی ہے اور وہ یہ کہ حکومت میں ساڑھے تین سال اور حکومت کے جانے کے بعد کے 8 ماہ کے تجربات نے خود عمران کو بھی قائل کر دیا ہے کہ قائد کی بات درست تھی، ورنہ کل تک تو وہ غیر سیاسی ہونے کو میر جعفریت، غداریت، جانوریت اور نہ جانے کیا کیا نام دیتے تھے۔ ان کی حکومت دراصل انہی کی دین تھی جن سے آجکل وہ سخت ناراض ہیں۔ ساڑھے تین سال ان کی حکومت قائم رہی تو بھی انہی کے دم پہ خود اعتراف کیا کہ ہمارے تو بندے بھی پورے نہیں ہوتے تھے، ان سے درخواست کرتے تھے، پھر وہ ہمیں بندے پورے کر کے دیتے تھے۔
ایسی ”سیاست“ کرنے والے اب قائداعظم کا فرمان ”انہیں“ یاد دلانے چلے ہیں تو اور کیا کہیئے، سوائے اس کے کہ اللہ کی قدرت ہے!
__________
خان صاحب کی ایک تصویر چھپی ہے جس میں وہ اپنی فریکچر شدہ پلاسٹر پوش ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھے ”ریلکس “ کر رہے ہیں۔ چار گولیوں سے چھلنی پلاسٹر لگی ٹانگ کے ساتھ شوخی کا یہ کرشمہ صرف خان صاحب کی کرشماتی شخصیت ہی دکھا سکتی ہے۔ ویسے کہا جاتا ہے کہ دراصل یہ پلاسٹر ہی کرشماتی تھا جو ان کی ٹانگ پر کیا گیا اور کرشماتی تو وہ کپڑے بھی تھے جو خان صاحب کے ساتھی عمران اسمعٰیل نے پہن رکھے تھے جن میں خان صاحب کے بقول چار گولیاں گھس گئیں اور کپڑوں میں سوراخ تک نہیں ہوا۔ بعدازاں عمران اسمعٰیل نے خان صاحب کے بیان میں یہ کہہ کر اضافہ کیا کہ کپڑوں میں گھس جانے والی گولیوں کی تعداد چار نہیں، پانچ یا چھ تھی۔
__________