• news

پوسٹ مارٹم کرنیوالے کرپٹ ، پولیس نا اہلی کی انتہا ہے


اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان پر مشتمل ڈویژن بنچ میں زیر سماعت نور مقدم کیس میں اپیلوں پر وکلاء کے دلائل دوسرے روز بھی جاری رہے۔ گذشتہ روز سماعت کے دوران مدعی مقدمہ شوکت مقدم اپنے وکیل کے ہمراہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے، دوران سماعت مرکزی مجرم ظاہر جعفر کے وکیل عثمان کھوسہ نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہاکہ ظاہر جعفر کی جانب سے میڈیکل کرانے کی ایک درخواست دائر کی ہے، ایف آئی آر پڑھنا چاہ رہا ہوں جس میں پراسیکوشن کے بیانات میں تضاد ہے۔ عدالت نے کہاکہ کیا کمپلیننٹ اور ظاہر جعفر کا موبائل فون قبضے میں لیا گیا تھا؟، مدعی مقدمہ کے وکیل نے کہاکہ مدعی کا نہیں لیکن ظاہر جعفر کا موبائل فون قبضے میں لیا گیا تھا۔ عدالت نے مدعی کے وکیل کو ہدایت کی کہ19 جولائی کو نور مقدم کی اپنے والد کے ساتھ کال ہے یا نہیں یہ بتانا ہے، وکیل نے کہاکہ18 جولائی نہیں بلکہ مدعی شوکت مقدم 19 جولائی کا بتا رہے ہیں کہ نور مقدم لاپتہ تھی۔ عثمان کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ سی ڈی آر کے مطابق بچی لاہور نہیں اسلام آباد تھی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ٹیکسی والا اس کیس میں آیا ہے؟۔ عثمان کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ یہ مجھے عجیب لگا ہے کہ انہوں نے مخصوص حصے سی سی ٹی وی کے ہمیں دیے، ٹیکسی اور ڈرائیور بھی سی سی ٹی وی میں نظر آرہے ہیں۔ مدعی مقدمہ کے وکیل نے کہاکہ ٹرائل کورٹ میں مکمل سی سی ٹی وی موجود تھی انہوں نے خود مخصوص سنی تھی۔  وکیل نے کہاکہ میں یہ بتانا چاہ رہا ہوں کہ ظاہر جعفر کا قتل کرنے کا کوئی ارادہ یا محرک نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کسی منصوبہ بندی کے بغیر کوئی قتل نہیں کیا جا سکتا؟۔ جس پر وکیل نے کہاکہ لڑکی نے نیول اینکریج سے ایف سیون پہنچنے تک ظاہر جعفر کو چھ کالز کیں جو اس نے اٹینڈ نہیں کیں،  آخری کال ظاہر جعفر کے گھر کے باہر سے کی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ معذرت کے ساتھ یہاں پوسٹ مارٹم کرنے والے نا اہل اور کرپٹ ہیں۔ عثمان کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ پراسیکیوشن کے گواہوں کے بیانات میں تضاد ہے جس کا فائدہ ملزم کو ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پتہ نہیں ہماری پولیس کب سیکھے گی، ہر کیس میں یہی مسائل سامنے آرہے ہیں۔  وکیل مدعی نثار اصغر نے کہا کہ تھراپی ورک کا ملزم پمز میں داخل ہوا اور وہاں اس نے جھوٹ بولا۔ وکیل نے کہاکہ پوسٹ مارٹم کرنے والوں کے تین نام دیے گئے ہیں، ہر کوئی ایک دوسرے پر ڈال رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ معلوم نہیں کہ پولیس بنیادی چیزوں کو کیوں اور کیسے نظرانداز کر سکتی ہے؟، اسی لیے ہمیں کہنا پڑتا ہے کہ یہ نااہلی کی انتہا ہے، مجھے نہیں سمجھ آیا کہ اس کیس میں 14 افراد کو ملزم بنانے کی کیا ضرورت تھی؟۔ وکلاء کے دلائل جاری رہے اور عدالت نے سماعت منگل تک کیلئے ملتوی کردی۔

ای پیپر-دی نیشن