ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر!
پاکستان واحد ایسی ریاست ہے کہ جس کے بھولے عوام ہر سیاسی لانگ مارچ اور احتجاج کا حصہ اس امید پر بنتے ہیں کہ اب کہ وہ مسیحا آگیا ہے جو دین و مذہب سے بیزار ،قوم و ملک کے نفع و ضرر سے بے نیاز ،مصلحتوں کا شکار حکمرانوں سے انہیں نجات دلادے گا کہ ہوس کی امیری اور ہوس کی وزیری کا خاتمہ کر کے چنگیزیت کو دفنا دیگا اور پھر شجر ملت پر ایسا گل بن کر مہکے گا ،جس کے سائے میں سب اپنے دردو غم بھلا کر سکھ کا سانس لیں گے کہ یہ جو چار سو سکوت ِمرگ طاری ہے وہ خوشحالی اور امن و سلامتی میں بدل جائیگا ۔عفریت کے سائے دم توڑ جائینگے اور شکستہ حوصلوں کو وہ مردِ آہن لشکر جرار کی ایسی سطوت عطا کریگا جس کی آنچ میں نیم مردہ خواب جاگ اٹھیں گے اور مفادات سے پراگندہ اور متعفن سیاست کا قلع قمع ہو جائیگا۔مگر حیف از حد حیف ! معصوم عوام اس حقیقت سے نابلد ہیںکہ ہمیشہ کی طرح یہ نقارہ ء انقلاب (حقیقی آزادی کا خواب )محض ذاتی مفادات کے پرچار کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ،کچھ ایسے خوابوں کی تکمیل کیلئے استعمال کیا گیا پر کشش لفظ جس کیلئے سیاسی کاریگر عرصہ دراز سے کوشاں ہوتے ہیں او ر اب انھیں لگ رہا ہے کہ پاکستان کی ڈگمگاتی نائو کو ایک دھکا کافی ہے مگر وہ بے خبر ہیں کہ یہ دھکا ان کو بھی اس نائو سمیت ان گہرے پانیوں میں ڈبو سکتا ہے جہاں ایسی شرارتوںکا وجود ممکن نہیں ہے ۔ہمارے عوام کی معصومیت کا عالم یہ ہے کہ آج کل چار سو اس طرح شور برپا ہے جیسے دشمن ملک کی فوج حملہ کرنے آرہی ہے ،کون سی ایسی محفل ہے جس میں اس کا تذکرہ نہیں ہے ،بڑوں سے لیکر چھوٹے بچے بھی اس کا ذکر یوں کرتے ہیں کہ جیسے کوئی بہت اہم چیز ایجاد کر لی گئی ہے جو جلد سب کے سامنے ہو گی اور اگر کسی سے سوال کیا جائے ،انقلاب کسے کہتے ہیں یا پی ٹی آئی کونسی حقیقی آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے توجوافراد تعلیم سے بے بہرہ ہیں وہ بیچارے ہونقوں کی طرح منہ دیکھتے ہیں تھوڑا سوچتے ہیں اور سر کو جھٹک کر اپنی منزل کی طرف گامزن ہوجاتے ہیں مگر جو عقل و شعور رکھتے ہیں وہ مسکراتے ہیں اور یوں فرماتے ہیں کہ 75 برس سے تو نہیں آیا اب کہاں ممکن ہے! ویسے جب آئیگاآپ کو بھی پتہ چل جائیگا کہ انقلاب کس چڑیاکا نام ہے اور ہماری آج کی دنیا میں انقلاب کا مطلب کیا ہے ۔پہلے بھی تو مولانا طاہر القادری اور خان صاحب نے انقلاب کے نعرے لگائے تھے اور پھر مولانا اڑان بھر گئے اورخان صاحب مجبوریوں کے قصے سناتے اور مخالفین کو للکارتے وقت گزارتے رہے یہاں تک کہ عوام عاجز آگئے۔حیرت ہے کہ آپ کیوں نہیں سوچتے کہ جنکے اپنے بچے اس ملک میں نہیں رہتے، وہ یہاں کے بچوں اور اسکے باسیوں کی فلاح و بہبود کیلئے کیاکرسکتے ہیں ،وہ اس ملک میں رہنے والوں کی مشکلات اور رہن سہن کو کیسے سمجھ سکتے ہیں ،وہ تو خود سال میں کچھ مہینے یہاں رہتے ہیں اورجب کوئی مصیبت آتی ہے تو بھی بیرون ممالک سے دعا ئیہ پیغامات بھیجتے ہیں وہ اس ملک میں رہنے والوں کی عسرت و یاسیت کا اندازہ کسیے کر سکتے ہیں ،ہم اتنے عاقبت نااندیش کیوں ہیں کہ یہ سمجھ نہیں پاتے یہ لوگ ہمارے نظام کو کیسے جان سکتے ہیں،جبکہ سبھی کو جب بھی موقع ملا انھوں نے اپنی اغراض کو سر فہرست رکھا کہ نام نہاد فلاحی ریاست سے لیکر مہنگائی مارچ کے رتھ پر سوار ہو کراقتدار حاصل کیا اور کچھ بھی نیا نہیں کیا۔اب پھر دعوی ہے کہ وہ نظام بدلیں گے اور ایسے تمام لوگوں کا احتساب کرینگے جنھوں نے اس پاک دھرتی کو اپنے مضموم مقاصد کا ہدف بنایا ، من مانیوں اور بے انصافیوں سے اسکے تشخص کو نقصان پہنچایا حالانکہ درپردہ کوشش یہی ہے کہ ایسے تمام احتسابی اداروں کو ہی بند کر دیں جو اشرافیہ کو کٹہرے میں لاتے ہیں اسلئے یہ سمجھنا کہ سیاسی بساط پر موجود بازیگروں میں کو ئی ایسا ہے جوامن و خوشحالی کا دور لے کرآئیگا تو موجودہ حالات اور بحرانوں میں صرف خواب میں ممکن ہے ۔ویسے بھی انقلاب مسلسل عمل کا نام ہے جو سیاست کو بزنس سمجھنے والے کبھی نہیں لا سکتے ۔
انقلاب تو آج سے چودہ سو سال پہلے آیا تھا ۔وہ تھی حقیقی آزادی جب کفر اورظلم کے زندانوں میں قید مظلوموں کے دل نور الہیٰ سے روشن ہوئے تو غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گئیں ۔ جب کفر کے بت توڑے گئے ، جب شراب مکہ کی گلیوں میں بہہ نکلی ، جب عورت کو جائز مقام ملا ،جب یتیموں ،بیوائوں اور مسکینوں کو معاشرے میں ان کا حق ملا ،جب سائلوں کو آسرا ملا ،جب غلاموں کو عزت و مال کا تحفظ ملا ،جب حق آگیا اور باطل مٹ گیا تھا ۔مگر۔۔ تب راہبر کون تھا ؟وہ جو خود عہد رضاعات سے اچھائی ،راست گوئی ،امانت و دیانت داری اور نیکی کا پیکر تھا ان کا خلق خود قرآن تھاہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سر تاپا کلام اللہ کی مثال تھے ،وہ ایسے رہبر کامل تھے کہ جن کی تربیت اور فیض سے بھٹکے ہوئوں نے منزل پائی ،یعنی سب سے پہلا انقلاب حقیقی معنوں میں جو آیا وہ کتاب اللہ ’’قرآن پاک ‘‘ پر عمل درآمد کروانے سے آیا ،مگر کیا آج ہمارے سینوں میں قرآن ہے ؟کیا ہم نے اس کو کبھی سمجھ کر پڑھا ہے کہ خدا ہمیں حکم کیا دیتا ہے اس کا پیغام کیا ہے ؟ افسوسہم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر۔۔
جان لیجیے کہ آپ آزاد وطن کے آزاد شہری ہیں۔ آپ کو آزادی کی نہیں ترقی و خوشحالی کی ضرورت ہے جبکہ ہر آنیوالا کرپٹ نظام کا حصہ بن جاتا ہے بایں وجہ اس کا بول بالا ہوتا ہے لیکن عوام کو کچھ نہیں ملتا یعنی کمی اس ڈر کی ہے جو ہر شخص کا ہاتھ برائی سے روکتا ہے اور وہ تبھی ہوگا جب ہم سب اپنی زندگیوں کو قرآن و سنتؐ کے تابع کر لیں گے اور شخصیت پرستی چھوڑ دینگے جس کیوجہ سے نسل در نسل حکمران سیاستدانوں نے سمجھ لیا ہے کہ اقتدر میں آنا ان کا پیدائشی حق ہے بظاہر بھیڑوں کے روپ میں نظر آتے ہیں در حقیقت باطن میں پھاڑنے والے بھیڑئیے بن چکے ہیں اسلئے وقت متقاضی ہے کہ جو اچھا کرے اسکا ساتھ دیا جائے مگر جو برا کرے اسکی حوصلہ شکنی کی جائے یعنی شخصیت پرستی چھوڑ کر سب کا کڑا احتساب ہوکیونکہ حکمران عوام کے خادم ہوتے ہیں اور عوام کا حق ہے کہ پوچھے کہ کیا نیا کیا ہے ؟ ان سے بلا تفریق سوال کریں یقین کریںانقلاب خود بخود آجائیگا۔