• news
  • image

تخت لاہور‘ وفاق پر ’’چیک‘‘ رکھنے کا ذریعہ


گزشتہ ہفتے کی شام عمران خان صاحب نے جب پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی اسمبلیاں توڑنے کے ارادے کا اعلان کیا تو محض پارلیمانی سیاست کے طویل مشاہدے کی بنیاد پر میں نے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ مذکورہ ارادے کو عملی صورت دینے میں کونسی دشواریوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔دلائل پر توجہ دینے کی مگر ہمیں عادت نہیں رہی۔عاشقان عمران بضد رہے کہ دونوں اسمبلیوں کے مستقبل کی بابت اب صبح گیا یا شام گیا والا معاملہ ہوچکا ہے۔اس کے علاوہ شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک ہمارے ہاں پنجابی محاورے والی ’’مدھانی‘‘ دہی کے بجائے پانی میں گھما کر ’’چوندے چوندے‘‘ نکات دریافت کرنے کا دھندا بھی جاری رہتا ہے۔ٹی وی سکرینوں پر لہٰذا پنجاب اور خیبرپختونخواہ  اسمبلیوں کی تحلیل ذہن میں رکھتے ہوئے مستقبل کے بارے میں زائچہ نویسی بھی ہوتی رہی۔رونق تو لگ گئی مگر ٹھوس نتیجہ ابھی تک برآمد نہیں ہوپایا ہے۔
اُکتاہٹ کی حد تک دہرائے زائچوں کو کچھ ’’نیا‘‘ فراہم کرنے کے لئے بالآخر چودھری مونس الٰہی میدان میں اُترے۔ہماری ایک مقبول اینکر محترمہ مہر بخاری کو انٹرویو دیتے ہوئے لوگوں کو یہ انکشاف کرتے ہوئے چونکادیا کہ موجودہ حکومت میں شامل جماعتوں سے وعدوں کے باوجود چودھری پرویز الٰہی بالآخر عمران خان صاحب کا ساتھ دینے کو اس لئے مجبورہوئے کیونکہ یہ سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کی خواہش تھی۔
مونس الٰہی نے اپنی زبان سے جو دعویٰ کیا وہ اسلام آباد کے کئی باخبر صحافی رواں برس کے اپریل ہی سے جان چکے تھے۔فرزند پرویز الٰہی نے اس کی تصدیق کرنے میں کافی وقت لیا۔سوال اس کے بعد یہ اٹھانا ضروری تھا کہ مذکورہ تصدیق کے لئے انہوں نے اس دن کا انتخاب ہی کیوں کیا جب ان کے والد لاہور کے زمان پارک میں عمران خان صاحب کے ساتھ ہوئی ایک ملاقات کے بعد پراسرار انداز میں راولپنڈی تشریف لاچکے تھے۔ اسلام آباد کے جڑواں شہر میں ان کی ’’اہم لوگوں‘‘سے ہوئی ملاقاتوں کے بارے میں پنڈی اور اسلام آباد کے متحرک ترین صحافی بھی یہ کالم لکھنے تک بے خبر ہیں۔شاید ایک روز میں ’’اندر کی بات‘‘ کھل کر سامنے آجائے۔
چودھری صاحب کی فراہم کردہ تصدیق نے البتہ ہمارے منظم اور طاقت ور ترین ادارے کے اس دعویٰ کو شدید زک پہنچائی ہے کہ رواں برس کے فروری سے وہ سیاسی مسائل سے کنارہ کش ہوچکے تھے۔ اس کی بات شکوک بھرے سوالات اٹھاتے ہوئے یہ حقیقت نظرانداز کی جارہی ہے کہ سابق آرمی چیف کی چند ذاتی ترجیحات بھی تھیں۔ان کے حصول کے لئے وہ اپنے ادارے کی بھرپور معاونت کے محتاج نہیں تھے۔ چھ برس تک اقتدار کے کھیل پر کامل گرفت کے بعد وہ اپنے تئیں بھی کوئی گیم لگانے کے قابل ہوچکے تھے۔ذاتی ترجیحات کے حصول کے لئے ان کے پاس ’’قاصدوں ا ور پیغامبروں‘‘ کا ایسا نیٹ ورک بھی موجود تھا جو ان کے ذہن میں موجود اہداف کے حصول کو ممکن بناسکے۔
تحریک عدم اعتماد کی بدولت اقتدار سے محروم ہوجانے کے بعد عمران خان صاحب نے جو جارحانہ انداز اپنایا اس نے سابق آرمی چیف کو یقینا پریشان کردیا تھا۔ تکنیکی اعتبار سے وہ 2022کا سورج طلوع ہوتے ہی کسی قابل ستائش ’’ورثے‘‘ یا Legacyکے ساتھ رخصت ہونا چاہ رہے تھے۔ حیران کن حد تک جارحانہ ہوئے عمران خان صاحب مگر انہیں مطلوبہ ورثے سے محروم کرنے کو تلے ہوئے تھے۔عمران خان صاحب کی جگہ جو اتحادی حکومت قائم ہوئی وہ آئی ایم ایف کو رام کرنے میں مصروف رہی۔ ریاست کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کی فکر میں مبتلا حکومت کے پاس اتنی سکت ہی موجود نہیں تھی کہ وہ جنرل باجوہ کو قابل ستائش ورثے کے ساتھ اپنے عہدے سے رخصت ہونے کو یقینی بناسکتی۔
وفاق میں شہبازشریف کے بطور وزیر اعظم انتخاب کے بعد اٹک سے رحیم یارخان تک پھیلے آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کو ان کے فرز ند اور سیاسی وارث حمزہ شہباز شریف کے حوالے کردینا ہمارے شہری متوسط طبقے کی کماحقہ تعداد کو پسند نہیں آیا تھا۔حمزہ کے انتخاب نے بلکہ نئی نسل کی کثیر تعداد کو ’’موروثی سیاست‘‘ سے نفرت کو بھڑکادیا۔ پنجاب کو مگر عثمان بزدار کے سپردرکھنا بھی ممکن نہیں رہا تھا۔ چودھری پرویز الٰہی آپا دھاپی کے اس ماحول میں ’’سب دھڑوں کے لئے قابل قبول‘‘ تھرڈ آپشن کی صورت نمایاں ہونا شروع ہوگئے۔
جنرل باجوہ وفاقی حکومت میں فقط شہباز شریف کی ’’انتظامی صلاحیتوں‘‘ کے معترف تھے۔اتحادی حکومت میں شامل دیگر جماعتوں کی قیادت کے بارے میں وہ مثبت خیالات کے حامل نہیں۔اس ضمن میں اپنے دل کی بات کو انہوں نے کئی سینئر صحافیوں کی موجودگی میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں ہوئی ایک ’’آف دی ریکارڈ ‘‘ گفتگو میں کھل کر بیان بھی کردیا تھا۔ان کا مذکورہ بیان یہ عیاں کرنے کو کافی تھا کہ وہ شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہوئی وفاقی حکومت پر مضبوط ’’چیک‘‘ بھی رکھنا چاہ رہے ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی کائیاں اور تجربہ کار سیاست دان ہوتے اس ضمن میں انہیں بہت کارآمد محسوس ہوئے اور چودھری صاحب نے آخری وقت تک اپنے مربی کو اس تناظر میں مایوس نہیں کیا۔
وفاقی حکومت پر تخت لاہور کے ذریعے ’’چیک‘‘ رکھنے کا سلسلہ ہمارے ہاں محمد خان جونیجو کے دور ہی سے شروع ہوگیا تھا۔ نواز شریف اس مقصد کے حصول کے لئے جنرل ضیاء کی فضائی حادثے میں رحلت کے بعد بھی 1990سے 1993تک بہت کارآمد ثابت ہوئے۔ اپریل 1993میں انہوں نے ’’خودمختار‘‘ ہونے کی جرأت دکھائی تو نئے انتخابات لازمی ہوگئے۔محترمہ بے نظیر بھٹو ان کی بدولت وزیر اعظم کے منصب پر لوٹ آئیں۔پنجاب مگر ان کے حوالے نہ ہوا۔میاں منظور وٹو نے وہی کردار ادا کرنا شروع کردیا جو پرویز الٰہی کو اپریل 2022میں سپرد ہوا تھا۔میرا خیال ہے کہ مونس الٰہی کا ’’تازہ ترین انکشاف‘‘ مقتدر حلقوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش تھی کہ بالآخر وفاق میں جو بھی اقتدار میں آئے،عمران خان صاحب ہوں یا ان کے مخالف ،اسلام آباد کو لاہور کے ذریعے قابو میں رکھنا ہے تو انہیں گجرات کے چودھریوں کی ضرورت رہے گی۔ یہ پیغام دیتے ہوئے اگرچہ وہ یہ حقیقت فراموش کررہے ہیں کہ ’’چیک‘‘ بنے افراد کی انگریزی زبان والی ’’شیلف لائن‘‘ بھی ہوتی ہے۔ وگرنہ وٹو صاحب ابھی تک اپنے جلوے دکھارہے ہوتے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن