• news

حکومت تیل دار اجناس‘دالوں کی پیداوار میں اضافے کا منصوبہ شروع کر نے میں ناکام 


اسلام آباد(چوہدری شاہد اجمل) حکومت ملک میں تیل دار اجناس اور دالوں کی پیداوار میں اضافے کا جامع منصوبہ شروع کر نے میں ناکام ہے جس کی وجہ سے ہر سال 300ارب روپے سے زائد کا کھانے کا تیل اور تیل دار اجناس بیرون ملک سے درآمد کیا جا تا ہے جبکہ دالوں کی درآمد پر سالانہ 102ارب روپے کا زرمبادلہ خرچ ہو تا ہے ،وزارت نیشنل فوڈ سیکورٹی کے ذرائع کے مطابق کستان خوردنی تیل کی درآمد پر سالانہ 300ارب روپے کا زرمبادلہ خرچ کرتا ہے ،ملکی سطح پر تیلدارا اجناس کی کاشت کے فروغ سے درآمدی بل قابو پانے کے ساتھ ساتھ پاکستان سے خوردنی تیل بیرون ممالک بھجوا کر ملکی معیشت کو تقویت دی جاسکتی ہے ۔ذرائع کے مطابق  پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ہر سال اربوں روپے کا قیمتی زرِمبادلہ صرف خوردنی تیل کی درآمد پر خرچ کرتا ہے اور گزشتہ چند سالوں سے یہ صورتِ حال ملکی معیشت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتی چلی آ رہی ہے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستان خوردنی تیل کی کل ضرورت کا تقریبا17فیصد خود پیدا کرتا ہے جبکہ باقی 83 فیصدحصہ کثیر زرِمبا دلہ خرچ کر کے درآمد کیا جا رہاہے، پاکستان تقریبا 300 ارب روپے سے زیادہ کا خوردنی تیل درآمد کرتاہے جو کہ ملکی معیشت پر بوجھ ہے۔حکومت کی طرف سے ملک میں تیل دار اجناس کی کاشت کا کوئی جامع اور ٹھوس منصوبہ شروع نہیں کیا جس کا ہے ، سورج مکھی کم دورانیے کی فصل ہے اور 110سے 120 دنوں کے مختصرعرصہ میں پک کر تیار ہو جاتی ہے۔ تیل دار اجناس کی کاشت کو فروغ دے کرکاشتکار اپنی آمدنی میں اضافہ کرنے کے علاوہ اپنے ملک میں تیل کی درآمد پر خرچ ہونے والی کثیر زر مبادلہ کی رقم بھی بچاسکتے ہیں ۔اسی طرح سے  پاکستان دالوں کی مقامی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے سالانہ 102بلین روپے کا زرمبادلہ خرچ کرتا ہے ،ملک میں دالوں کی سالانہ کھپت 10لاکھ ٹن  جبکہ  پیداوار 5لاکھ ٹن ہے ۔ دنیامیں سالانہ دالوں کی پیداوار 60سے70ملین ٹن ہے،اس لیے ملک میں دالوں کی پیداوار میں اضافے کے مزید اقدامات ناگزیر ہیں ۔دالوں کو مارجنل لینڈ اور ایڈیشنل کراپس کی بجائے مین سٹریم کراپس کے طور پر کاشت کرنا ہوگا۔آبپاشی کیلئے قدرتی بارش پر انحصار ختم کرکے مصنوعی طریقہ کو اپنانا ہوگا تاکہ دالوں کی پیداوار میں اضافے کے تسلسل کو یقینی بنایا جاسکے۔دالوں کی فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کیلئے مربوط حکمت عملی کے تحت تحقیق کے عمل کو بھی آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

ای پیپر-دی نیشن