وزیراعظم کا زرعی پیکج اعلان اور حقیقت
امان اللہ چٹھہ
زراعت کا شعبہ پاکستان میں اپنی تمامتر اہمیت کے باوجود بری طرح نظر انداز ہونے کے باعث ایک عرصہ سے سخت ابتری کا شکار ہے جس کے قومی معیشت پر منفی نتائج مرتب ہو رہے ہیں،ساٹھ ستر فیصد دیہی اور تیس چالیس فیصد شہری آبادی براہ راست متاثر ہورہی ہے۔ حکومت پچھلے چار پانچ سال سے مسلسل کئی ملین ٹن گندم درآمد کرنے پر مجبور ہے۔ اسی طرح خوردنی تیل اور دالوں میں خود کفالت حاصل کرنے کی سنجیدہ کوشش کی بجائے ہر سال ان کی درآمد پربھی اربوں ڈالر صرف کئے جارہے ہیں جبکہ پیاز آلو ٹماٹر جیسی اجناس بھی وقتاً فوقتاً ہنگامی بنیادوں پر بھاری زرمبادلہ خرچ کر کے درآمد کرنا پڑتی ہیں۔یہ تمام امور اعلیٰ مناصب پر فائز بھاری معاوضہ لینے والے اکنامک منیجرز اور زرعی تحقیق کے اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔جس پر کسانوں نے شعبہ زراعت کی اس زبوں حالی کی طرف ارباب اختیار کی توجہ دلانے کی خاطر پچھلے دنوں وفاقی و صوبائی دار الحکومتوں میں دھرنوں کی صورت میں صدائے احتجاج بلند کی ۔ اس صورت حال کے پیش نظروفاقی و صوبائی وزراء نے مسائل کے ٹھوس حل کییلئے کسانوں کومکمل یقین دہانی کروائی ہے۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے 1800ارب روپے کے زرعی پیکج کا اعلان بھی کیا ہے جو اگرچہ مسائل کے حل کی نیم دلانہ اور ادھوری کوشش ہے تاہم اس پر عملدرآمد کا آغاز ہونے پر محسوس ہو رہا ہے کہ یہ پیکج بھی شایدایک نمائشی اقدام ہے ۔
کھاد پر سبسڈی کسان کو یا ڈیلر کو؟
زیر نظر سطور میں اس پیکج کے چند پہلوؤں پر روشنی ڈالے کی کوشش کی جارہی ہے۔ زرعی پیکج میں سب سے بڑے ریلیف کا دعویٰ ڈے اے پی کھاد کی قیمت میں نمایاں کمی کی صورت میں کیا گیا۔ اس کی حقیقت ملاحظہ کیجئے۔ گزشتہ دو سال سے ڈی اے پی کھاد کی قیمت 6500/-روپے بوری سے بڑھا کر 13750/-روپے کر دی گئی تھی جو ناقابل برداشت بوجھ کی وجہ سے کسانوں کی دسترس سے باہر ہوگئی۔ چنانچہ اس کا بڑا سٹاک جمع ہونے پر کھاد ڈیلر بھاری سرمایہ منجمند ہونے کے پیش نظر ہر قیمت پر اس مالی بوجھ سے نجات کیلئے فکر مند تھے۔ دوسری طرف عالمی مارکیٹ میں فاسفورس کھادوں کی قیمت میں مسلسل غیر معمولی کمی کا رجحان پیدا ہوچکا تھا۔ اس پس منظر میں کھاد ڈیلر گندم کی بوائی کے حالیہ سیزن میں انتہائی کمتر قیمت پر فروخت کی پیشکش کرنے کیلئے تیار تھے کہ حکومت نے بھی پیکج کے نام پر صرف 2500/-روپے بوری کمی سے قیمت 11225/-روپے مقرر کرنے کا اعلان کردیا۔ جب کسان اس رعایت کو اونٹ کے منہ میں زیرہ قرار دیتے ہوئے خریداری کیلئے تیار نہ ہوئے تو کھاد ڈیلر 2500/-روپے کی رعایت سے بھی مزید بڑھ کر 9000/-روپے فی بوری قیمت پر فروخت کرنے کیلئے تیار ہوگئے۔
یوریا کی بلیک مارکیٹنگ
دوسری طرف یوریا کھاد ہے جو ملک کے اندر تیار ہوتی ہے جس کی قیمت حکومت خود مقرر کرتی ہے لیکن معلوم نہیں وہ کونسی خلائی مخلوق ہے جو کھاد کے فیکٹری سے کھیت تک پہنچتے پہنچتے 500/-روپے کا ٹیکہ لگا دیتی ہے جسے سارے حکومتی اداروں اور انتظامیہ کے سامنے ڈیلر بلا تکلف کسانوں کو منتقل کردیتے ہیں۔ قیمت 1800/-روپے تھی تو مقررہ قیمت پر ناپید ہوتی تھی مگر 2300/-روپے پر وافر مقدار میںدستیاب تھی اب قیمت 2200/-روپے ہے تو بھی کمیشن کے علاوہ ڈیلر یاکمپنیاں اس کے ساتھ اضافی 500/-روپے دھڑلے سے وصول کررہی ہیں۔ اس انتظامی بے بسی کا تمام تر نزلہ عضو ضعیف کسان پر گرتا ہے جس سے زبوں حالی کا شکار زرعی پیداوار بھی یکساں طور پر متاثر ہورہی ہے۔
بجلی کے ناقابل برداشت زرعی بل:
جدید زراعت میں پانی زبردست اہمیت کا حامل ہے۔ نہری پانی کی قلت کے باعث ٹیوب ویل ہی آبپاشی کے نظام میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ زراعت کی حوصلہ افزائی کیلئے حکومتیں ارزانی و فراوانی سے بجلی کی بہم رسانی کو خصوصی اہمیت دیتی ہیں۔ ہمارے ہاں بھی اسی جذبہ سے ایک دفعہ زرعی بجلی کا فکسڈ ریٹ5.35روپے یونٹ مقرر کر دیا گیا لیکن تھوڑا عرصہ بعد ہی اس میں بتدریج اضافہ کرکے 35/-روپے یونٹ تک پہنچا دیا گیا۔ مختلف قسم کے ٹیکس فیول ایڈجسٹمنٹ کوارٹر ایڈجسٹمنٹ جی ایس ٹی وغیرہ اس پر مستزاد جن سے کسانوں کو ٹیوب ویل کا ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے کا بل ماہانہ دیا جانے لگا ہے۔ حالیہ زرعی پیکج میں زرعی ٹیوب ویل کیلئے بجلی کا نرخ 13روپے یونٹ کرنے کا اعلان تو کر دیا گیا ہے لیکن ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ اعلان کے بعد جو بل بھیجے گئے ہیں ان میں بجلی کی قیمت بھی زائد درج کی گئی جبکہ تمامتر اضافی ٹیکس بھی برقرار رکھے گئے ہیں ۔
حالیہ پیکج میں زرعی مشینری میں سے صرف ٹریکٹر کی قیمت میں کمی کی تدبیر کے طور پر پانچ سال پرانے ٹریکٹر درآمد کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ وزارت صنعت و تجارت کی ذمہ داری ہے کہ وہ درآمد کا ایسا طریق کار وضع کرے جس کے نتیجہ میں کسانوں کو مارکیٹ سے ٹریکٹر خریدتے ہوئے نمایاں ریلیف ملتا نظر آئے نہ کہ درآمد کنندگان اور ڈیلر ہی اسے نفع اندوزی کا ذریعہ بنالیں۔
زرعی پیکج میں نہ تو زرعی ادویات کی ملاوٹ و گرانی کا ذکر ہے نہ ہی کسان کی خون پسینہ سے حاصل کردہ فصل کے منصفانہ معاوضہ کی ضمانت دی گئی ہے جو وفاقی کے ساتھ صوبائی حکومتوں کی بھی ذمہ داری ہے۔جبکہ محنت و اخراجات کے معاوضہ میں مناسب ترغیبات (Incentives)کے بغیر پیداوار میں اضافہ محال ہے۔دور حاضر میں جدید تحقیق اور ٹیکنالوجی کی فراہمی کے بغیر زراعت کی ترقی کا تصور نہیں کیا جاسکتا اس شعبہ کا جمود ہماری زراعت کے روبہ زوال ہونے کا ایک بڑا سبب ہے۔ زرعی تحقیق کے اداروں، سائنس دانوں اور ماہرین کو خاطر خواہ کردار ادا کرنے کیلئے مناسب وسائل اور ماحول فراہم کرنے کے ساتھ مختصر المیعاد اور طویل المیعاداہداف دینے چاہیئں اور اس ٹاسک کی تکمیل کیلئے کسانوں، ماہرین اور اعلیٰ حکام کو مربوط حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے جو نگرانی اور تعاون کا فریضہ انجام دے سکیں۔