کراچی پورٹ پر 0.6 ملین ٹن سویابین کی عدم کلیئرنس پر تحفظات کا اظہار
لاہور+فیصل آباد (کامرس رپورٹر+نمائندہ خصوصی ) قائم مقام صدر ایف پی سی سی آئی سلیمان چاؤلہ نے کراچی پورٹ پر 0.6 ملین ٹن سویابین کی عدم کلیئرنس پر اپنے گہرے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور واضح طور پر خبردار کیا ہے کہ اس کے نتیجے میں ملک میں پولٹری فیڈ کی بڑے پیمانے پر قلت پیدا ہو جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولٹری اور ڈیری مصنوعات پہلے ہی پاکستان میں صارفین کی قوت خرید سے باہر ہیں اور حال ہی میں اس نے قیمتوں میں استحکام کی ابتدائی علامات ظاہر کی تھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سپلائی میں مزید رکاوٹ قیمتوں کے استحکام کو مکمل طور پر تباہ کر دے گی اور اشیائے خوردونوش میں افراط زر کو مزید ہوا دے گی۔ سلیمان چاؤلہ نے بتایا کہ درآمد کنندگان نان کلیئر نس کی وجہ سے بھاری ڈیمریجز اور ٹرمینل چارجز کا سامنا کر رہے ہیں اور جب ڈالر کی عدم دستیابی اور اس کی قیمت میں اتار چڑھاؤ کے اثرات کو بھی شامل کر لیا جائے تو درآمد کنندگان کو ناقابل برداشت مالی نقصان برداشت کرنا ہوگا۔ پورٹ قاسم سے سویابین سیڈ کی درآمدی کنسائنمنٹس کو فوری طور پر ریلیز نہ کیا گیا اور آئندہ 15سے 20دنوں تک پولٹری سے وابستہ صنعت بند ہو نا شروع ہو جائیگی جبکہ خوراک کی قلت سے بڑی تعداد میں چوزوں کے مرنے کے خدشات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ بات پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین اور فیصل آباد چیمبر آف کامر س اینڈانڈسٹری کے سینئر نائب صدر ڈاکٹر سجاد ارشد نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے بتایا کہ سالونٹ انڈسٹری گزشتہ 10سالوں سے سویا بین درآمد کر رہی ہے جس کا تیل انسانی خوراک کے طور پر استعمال ہور ہا ہے جبکہ اِس کے Meal کو پولٹری اور اینیمل فیڈ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس صنعت سے 2ملین افراد براہ راست منسلک ہیں اگر 6لاکھ ٹن سویابین سیڈ کی درآمدی کنسائنمنٹس کو فوری کلیئر نہ کیا گیا تو آنے والے 15سے 20دنوں میں فیڈ کا سٹاک ختم ہو جائے گا اور پولٹری فارم کے ساتھ ساتھ فیڈ ملیں اور اس سے منسلک دیگر صنعتیں بھی بند ہونا شروع ہو جائیں گی۔ سویا بین Meal جس کی قیمت 95روپے فی کلو تھی اب 300روپے میں بھی دستیاب نہیں۔ انہوںنے اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا کہ پولٹری کی صنعت گوشت کی 50فیصد ضروریات کو پورا کر رہی ہے جبکہ پروٹین کی قلت کی وجہ سے 44فیصد بچے عدم بڑھوتری اور 43فیصد افراد غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ 20فیصد افراد کو سرے سے کھانے کو بھی کچھ دستیاب نہیں ۔ حکومت اور سالونٹ انڈسٹری کے درمیان تنازعہ کی وجہ سے پولٹری کی صنعت متاثرہو رہی ہے۔ پولٹری فیڈ کے بڑے یونٹوں کے پاس ڈیڑھ دو ماہ کا سٹاک موجود ہے جبکہ 50سے زائد چھوٹے یونٹ بند ہو چکے ہیں اور اگر اس صورتحال کا فوری نوٹس نہ لیا گیا تو بڑے ادارے بھی بتدریج بند ہو جائیں گے۔