• news

ارشد شریف قتل کیس: تفتیش سینئر آزاد افسروں سے کرائی جائے،ضکومت تمام زاویوں سے جائزہ لے:چیف جسٹس


 اسلام آباد (خصوصی رپورٹر+ اپنے سٹاف رپورٹر) سپریم کورٹ نے صحافی ارشد شریف قتل کی تحقیقات کیلئے حکومت کی جانب سے بنائی گئی سپیشل جے آئی ٹی کے نام طلب کر لئے۔ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ ایسے آزاد اور سینئیر افسران کو شامل کیا جائے جو بغیر دبائو کے تحقیقات کر کے نتیجے پر پہنچ سکیں، عدالت تحقیقات میں مداخلت نہیں کرے گی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کینیڈا میں ہونے والے واقعہ کی تحقیقات کی جاتی تو آج یہ دن نہ آتا۔ عدالت نے ارشد شریف کے اہلخانہ کو تفتیش میں شامل ہونے کی ہدایت کردی۔ سپریم کورٹ میں ارشد شریف ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔ جس کے بعد ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے وزارت خارجہ اور حکومت کی جانب سے موقف اختیار کیا کہ کینیا کے حکام سے تحقیقاتی ٹیم نے معلومات حاصل کیں، اس حوالے سے فائرنگ کرنے والے تین اہلکاروں سے ملاقات کرائی گئی، چوتھے اہلکار کے زخمی ہونے کے باعث ملاقات نہیں کرائی گئی، ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے،  ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا فائرنگ کرنے والے کینیا پولیس اہلکار ہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا فائرنگ کرنے والوں نے پاکستانی ٹیم کو کیا بتایا رپورٹ میں نہیں لکھا۔ چیف جسٹس نے کہا رات ایک بجے عدالت کو رپورٹ فراہم کی گئی ہے، کیس کا اصل نکتہ یہ ہے کہ یہ ایک بہیمانہ قتل ہے  اس بیہمانہ قتل کے اصل شواہد کینیا میں ہیں، کینیا کے حکام کیساتھ معاملہ اٹھانا ہوگا،  ہم تحقیقات میں کوئی ہدایات نہیں دینا چا ہتے، چار لوگوں میں انسپکٹر، دو پولیس اہلکار اور ایک ڈارئیور شامل ہے۔ چیف جسٹس نے کہا فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کا کام قابل ستائش ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ مقدمہ میں تین افراد کو کس بنیاد پر نامزد کیا گیا ہے۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے، تنبیہہ کر رہا ہوں کہ حکومت بھی سنجیدگی سے لے، اس سے بہتر بھی مقدمہ کا اندراج کیا جا سکتا تھا۔ عدالت کو ڈی ٹریک کرنے کی کوشش مت کریں۔  چیف جسٹس نے کہا رپورٹ کے مطابق مقدمہ میں نامزد ملزمان کے اہم شخصیات سے رابطے ہیں، حکومت کا کام ہے کہ ایسے افسران لگائے جو آزادانہ تحقیقات کر سکیں، ایک آزاد ٹیم ہونی چاہئے، کسی بھی ایسے شخص کو نہیں چاہئے جس کا کسی بھی قسم کا تعلق نا ہو، توقع کرتے ہیں کہ ایسے افراد کو شامل کیا جائے گا جو حقائق نکال سکیں۔ ارشد شریف کی والدہ محترمہ رفعت آرا  علوی نے پیش ہو کر عدالت کا شکریہ ادا کیا۔ چیف جسٹس نے کہا شکریہ کی ضرورت نہیں عدالت اپنا فرض ادا کر رہی ہے، جو ہوا اس پر افسوس ہے۔ ارشد شریف کی والدہ نے موقف اختیار کیا کہ جس طرح پاکستان سے ارشد کو نکالا گیا وہ رپورٹ میں لکھا ہے، دوبئی سے جیسے ارشد کو نکالا گیا وہ بھی رپورٹ میں ہے، مجھے صرف اپنے بیٹے کیلئے انصاف چاہیے، اس کو مثال بننا چاہئے تاکہ آئیندہ کسی کے ساتھ ایسا دوبارہ نہ ہو، میری صرف انصاف کی درخواست ہے۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا آپ کو تحقیقاتی ٹیم کو بیان ریکارڈ کرانا ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا ارشد شریف کی والدہ نے کئی لوگوں کے نام دیے ہیں، حکومت قانون کے مطابق تمام زاویوں سے تفتیش کرے، فوجداری مقدمہ ہے اس لیے عدالت نے کمیشن قائم نہیں کیا، کیس شروع ہی خرم اور وقار سے ہوتا ہے، ان دو بھائیوں سے لیڈ ملتی ہے ۔جے آئی ٹی میں ایسا افسر نہیں چاہتے جو انکے ماتحت ہو جن کا نام آ رہا ہے ارشد شریف کی والدہ دو شہدا کی ماں ہیں، شہید کی والدہ کا موقف صبر اور تحمل سے سنا جائے،  جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کینیڈا میں پاکستانی خاتون کے قتل پر اقدامات کرتے تو شاید یہ واقعہ نہ ہوتا، ان کا بیٹا تو جا چکا اب دوسروں کے بچے بچانا چاہتی ہیں،واقعہ کے بعد شور کرنے کے بجائے پہلے کچھ نہیں کیا جاتا،  ارشد شریف کی اہلیہ نے موقف اختیار کیا کہ فیکٹ فاینڈنگ رپورٹ کی کاپی فراہم کی جائے،سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں قرار دیا کہ ایف آئی آر مختصر ہے کیونکہ تفتیش ہوئی نہ ہی کوئی چشم دید گواہ ہے،کل تک جے آئی ٹی کے تمام ناموں سے آگاہ کیا جائے، تفتیش سینئر قابل اور آزاد افسران سے کرائی جائے جے آئی ٹی ارکان معاملہ فہم اور دوسرے ملک سے شواہد لانے کے ماہر ہوں، وزارت خارجہ شواہد جمع کرنے میں جے آئی ٹی کی مکمل معاونت کرے، اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں سے بھی معاونت ضروری ہو تو وزارت خارجہ معاونت کرے، ارشد شریف کے اہلخانہ سے تمام معلومات شیئر کی جائیں،یقینی بنانا ہے کہ قابل اور اہل افسران قانون کے مطابق اپنا کام کریں، ارشد شریف کے اہلخانہ سے تمام معلومات شیئر کی جائیں،یقینی بنانا ہے کہ قابل اور اہل افسران قانون کے مطابق اپنا کام کریں وزارت خارجہ شواہد جمع کرنے میں جے آئی ٹی کی مکمل معاونت کرے، اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں سے بھی معاونت ضروری ہو تو وزارت خارجہ معاونت کرے،سینئر اینکر پرسن ارشد شریف شہید کے قتل کی تحقیقات کیلئے ڈائریکٹر ایف آئی اے اطہر وحید اور ڈپٹی ڈی جی آئی بی عمر شاہد حامد پر تشکیل دی گئی دو رکنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے 592 صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ مرتب کرکے وزارت داخلہ کو جمع کرائی تھی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ فیکٹ فائنڈنگ کیلئے گئی ٹیم سے کینیا پولیس نے تحقیقات میں کوئی معاونت نہیں کی ارشد شریف کے کینیا میں میزبان خرم اور وقار کا کردار اہم اور مزید تحقیق طلب ہے فیکٹ فائنڈنگ میں وقار احمد سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے وقوعہ کے وقت گاڑی چلانے والے خرم کا بیان تضاد سے بھرپور ہے دونوں افراد مطلوبہ معلومات دینے سے ہچکچا رہے تھے مقدمات کی وجہ سے ارشد شریف بیرون ملک گئے ارشد شریف کا قتل پلینڈ تھالیکن اس سلسلے میں کینیا پولیس نے تحقیقات میں کوئی معاونت فراہم نہیں کی فیکٹ فائنڈنگ کے مطابق ارشد شریف سے ایک درجن کے قریب افراد رابطے میں تھے جو پاکستان، دوبئی، کینیا میں مقتول کے ساتھ رابطے میں تھے  ارشد شریف کو کس نے دھکمیاں دیں اس حوالے سے فیکٹ فائنڈنگ میں کوئی ثبوت نہ مل سکا لیکن صرف تین مدعی مقدمہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے  ایف آئی اے کے اندراج میں قانونی طریقوں کو پورا نہیں کیا گیافیصل واوڈا نیفیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو نہ شواہد دیے اور نہ ہی اپنا بیان جمع کرایافیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کا زیادہ ترانحصار لوگوں سے کئے گئے انٹرویو پر رکھا گیارپورٹ کے مطابق کیس میں کئی غیرملکی کرداروں کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے قائم کی گئی فیکٹ فائینڈ نگ کمیٹی نے ارشد شریف کے قتل کو باقاعدہ قتل قرار دیتے ہوئے سیکشن 4 اور انسداد دہشتگردی کے تحت ایف آئی اے میں اندراج مقدمہ کی سفارش کردی خدشہ ہے کہ ایف آئی اے کے اندراج میں قانونی طریقوں کو پورا نہیں کیا گیا، فیصل واوڈا نیفیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو نہ شواہد دیے اور نہ ہی بیان جمع کرایا، جبکہ کینیا میں موجودوقار احمد کمیٹی کے سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے، وقار کا تعلق کینیا کی انٹیلی جنس سمیت کئی بین الاقوامی ایجنیسوں سے ہے،  ٹریننگ کیمپ کو بطور آلہ کار استعمال کیا گیا۔حالات کے مطابق خرم احمد کا موقف درست نہیں لگتا کے چلتی گاڑی پر فائرنگ ہوئی، ممکنہ طور پر ارشد شریف کو کھڑی گاڑی میں نشانہ لے کر مارا گیا، ارشد شریف کی کمر میں لگنے والی گولی پولیس اور خرم کے موقف سے متضاد ہے، ارشد شریف کی کمر میں گولی قریب سے یا ممکنہ طور پر گاڑی کے اندر سے ماری گئی، وقار احمد نے ارشد شریف کا فون پولیس کی بجائے کینیا کی اینٹیلیجنس ایجنسی کو دیاپوسٹ مارٹم رپورٹ سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ قتل سے پہلے ارشد شریف کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ارشد شریف پر تشدد کے ٹھوس شواہد نہیں مل سکے، پاکستان اور کینیا کی پوسٹمارٹم رپورٹس میں تضاد ہے،  کینیا حکام نے نہیں بتایا کہ کتنے ناخن بطور سیمپل لیے گئے،پاکستانی پوسٹمارٹم رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کے بائیں ہاتھ کی انگلیوں کے چار ناخن نہیں تھے، رپورٹ میں ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ کے اندراج کی سفارش کی گئی ہے۔ 

ای پیپر-دی نیشن