پاکستان کی معاشی ترقی میں زراعت کی اہمیت
زراعت کو پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ پاکستان کی مجموعی قومی آمدن (جی ڈی پی)کا تقریباً 18.5 فیصد زراعت پر مشتمل ہے، 64 فیصد دیہی باشندوں کی روزی روٹی زراعت سے وابستہ ہے اور کل قومی لیبر فورس کا تقریبا ً43 فیصد زراعت پر مشتمل ہے۔ پاکستان دنیا کے اْن 11 بڑے ممالک میں سے ایک ہے جن کے پاس وسیع اور زرخیز زرعی زمین موجود ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام پاکستان میں ہے۔ ملک بھر میں چار موسموں کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں گرم، سرد اور معتدل آب و ہوا دی ہے جس میں بہت سی فصلیں کامیابی سے اگائی جا سکتی ہیں۔
پاکستان88.7ملین ٹن گنے کی پیداوار کے ساتھ دنیا بھر میں 5 ویں نمبر پر،26.4ملین ٹن پیداوار کے ساتھ گندم میں 8 ویں نمبر پر، 9.3ملین ٹن کے ساتھ چاول کی پیداوار میں 10 ویں نمبر پر، 10.6ملین ٹن پیداوار کے ساتھ مکئی کی پیداوار میں 20 ویں نمبر پر،8.3ملین ٹن پیداوارکے ساتھ کپاس میں چوتھے نمبر پر، 4.6 ملین ٹن آلو کی پیداوارکے ساتھ 18ویں نمبر پر، 2.3 ملین ٹن آم کی پیداوارکے ساتھ دنیا بھر میں 5ویں نمبر پر اور 2.1 ملین ٹن پیاز کی پیداوارکے ساتھ دنیا بھر میں چھٹے نمبر سمیت دیگر زرعی مصنوعات میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔
پاکستان خوراک اور فصلوں کی دنیا کے سب سے بڑے پروڈیوسرز اور سپلائرز میں سے ایک ہے۔ چنے کی پیداوار میں پاکستان د نیا بھر میں تیسرے، خوبانی چھٹے، دودھ چوتھے، کھجور پانچویں، گنا پانچویں، پیاز ساتویں، کینو/ سنگترہ چھٹے، آم چوتھے، گندم ساتویں، چاول گیارہویں اور جی ڈی پی سیکٹر کی ساخت کے لحاظ سے ممالک کی عالمی فہرست کے مطابق پاکستان فارم کی پیداوار میں آٹھویں نمبر پر ہے۔
پاکستان کی سب سے بڑی غذائی فصل گندم ہے۔ 2018 ء تک پاکستان میں گندم کی پیداوار 26.3 ملین ٹن تک پہنچ گئی تھی۔ 2005 ء میں پاکستان نے 21,591,400 میٹرک ٹن گندم پیدا کی جو کہ تمام افریقہ کی پیداوار (20,304,585 میٹرک ٹن) سے زیادہ اور تقریباً تمام جنوبی امریکہ (24,557,784 میٹرک ٹن)کی پیداوار سے زیادہ ہے۔ سال 2012 ء میں پاکستان میں 25 ملین ٹن سے زیادہ گندم کی کٹائی ہوئی تھی۔ پاکستان خوراک کا خالص برآمد کنندہ ہے، سوائے کبھی کبھار ، جب اس کی فصل خشک سالی سے بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ پاکستان چاول، کپاس، مچھلی، پھل (خاص طور پر نارنگی اور آم) اور سبزیاں برآمد کرتا ہے اور خوردنی تیل، گندم، دالیں اور خوراک کی دیگر اشیاء درآمد کرتا ہے۔ یہ ملک ایشیا کی اونٹوں کی سب سے بڑی منڈی، دوسری سب سے بڑی خوبانی اور گھی کی منڈی اور تیسری سب سے بڑی کپاس، پیاز اور دودھ کی منڈی ہے۔
اتنے وسیع زرعی وسائل کے باوجود پاکستان کو زرعی اجناس درآمد کرنا پڑرہی ہیں جو تشویشناک امر ہے۔ پاکستان کی زرعی درآمدات اس وقت 8 ارب ڈالر سالانہ سے متجاوز ہیں۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم اجناس درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔ ان درآمدات میں زیادہ تر خوردنی تیل، کپاس، گندم، چینی، چائے اور دالیں وغیرہ شامل ہیں۔ ہماری زرعی درآمدات پیٹرولیم کی درآمدات کو چھو رہی ہیں۔ اس قدر بے پناہ زرعی وسائل کے باوجود پاکستان کا زرعی شعبہ غیر پیداواری ہے اور ہم اپنے زرعی شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے حوالے سے خطے کے دیگر ممالک سمیت دنیا بھر سے بہت پیچھے ہیں۔ پاکستان کی اہم روایتی فصلوں میں گندم، کپاس، گنا اور چاول وغیرہ نمایاں ہیں۔ایک وقت تھا جب مذکورہ فصلوں میں پاکستان خودکفیل تھا ، تاہم پے درپے حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کے باعث ہم ایک عرصے سے گندم، کپاس، چینی جیسی اجناس بھی درآمد کرنے پر مجبور ہیں جس پر بھاری ملکی زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔ زراعت کے جدید طریقے اور ٹیکنالوجی اپناکر ان فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار بڑھائی جاسکتی ہے، نیز بنجر زمینوں کو زیرکاشت لاکر ہم نہ صرف اپنی ملکی ضروریات پوری کرسکتے ہیں بلکہ ان فصلوں /پیداوار کودوبارہ برآمد کرنے کی پوزیشن میں آسکتے ہیں۔ پاکستان میں تقریباً 20 ملین ایکڑ قابل کاشت بنجر زمین کو زیر کاشت لاکر نہ صرف وسیع و عریض رقبے کو زرخیز بنایا جاسکتا ہے بلکہ اس سے کسانوں کو روزگار کے مواقع بھی فراہم ہوں گے جس سے نہ صرف ملک خوشحال ہوگا بلکہ معیشت بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہوگی۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جنگی بنیادوں پر نئے ڈیم بنانا ضروری ہے۔ہم خوردنی تیل اور تیل کے بیجوں کی سالانہ درآمدات پر لگ بھگ 300 ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کرتے ہیں۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان خوردنی تیل درآمد کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ خوردنی تیل اور تیل دار اجناس کی درآمد پر اس قدر کثیر سرمایہ خرچ کرنا انتہائی تشویش ناک بات ہے۔ (جاری)