• news

انگلستان میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ 


کئی ماہ کی غیرحاضری اور کووڈ۔19 کی سخت ترین پابندیوں کے اختتام پر بوسٹر اور فلو انجکشن لگوانے کے بعد میرے دیرینہ بزرگوار دوست کیپٹن (ر) فریڈ اگلے روز غریب خانہ تشریف لائے۔ ہاتھ میں وہی بھاری بھرکم ’’سنڈے ٹائمز‘‘ واکنگ سٹک اور لبوں پر مخصوص مسکراہٹ تھی۔ آپ مصروف تو نہیں تھے؟ فریڈ نے اندر داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔ بالکل نہیں! میں نے جواب دیا۔ البتہ آپ سے یہ شکوہ ضرور ہے کہ کافی مدت بعد آپ نے شرف ملاقات بخشا ہے۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ تمام تر کووڈ انجکشنز اور بوسٹر کے باوجود کووڈ سے ابھی جان نہیں چھوٹی‘ اس لئے احتیاط کرتا ہوں کہ دوستوں سے کی جانیوالی ملاقاتوں میں احتیاطی تدابیر کی روٹین متاثر نہ ہونے پائے۔ فریڈ نے کہا۔ 
لگتا ہے ’’سنڈے ٹائمز‘‘ میں آج پھر کوئی ایسی غیرمعمولی خبر ہے جو مجھ سے آپ ڈسکس کرنے آئے ہیں۔ میں نے مسکراتے ہوئے فریڈ سے کہا۔ You are absolutly right. فریڈ نے ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ اخبار کے ہمراہ آپ کیلئے 2021ء مردم شماری کی مختصر مگر وہ حیرت انگیز رپورٹ بھی لے کر آیا ہوں جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ برطانیہ میں دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام تیزی سے مقبول ہونے والا ایسا مذہب بن چکا ہے جس کی پیشین گوئیاں بہت پہلے کی جاتی رہی ہیں۔ سوچا یہ تحقیقی خبر کیوں نہ تم تک پہنچائی جائے۔ واقعی ایک بڑی خبر ہے‘ فریڈ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے میں نے کہا۔ ’’لاٹے‘‘ کا کپ اور فریڈ کے پسندیدہ چاکلیٹ بسکٹ اسکی میز پر میں رکھ چکا تھا۔ مردم شماری کی رپورٹ برائے 2021ء میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ برطانیہ میں اسلام سب سے زیادہ تیزی سے مقبول ہونیوالا مذہب بن چکا ہے جبکہ برطانوی مسلمانوں میں پانچ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مجھے بخوبی علم تھا کہ 2001ء کے مردم شماری فارم میں مذہب کا خانہ تو متعارف کروایا گیا مگر اس خانے کو پر کرنا لازمی قرار نہیں دیا گیا تھا۔ مگر اسکے باوجود 94 فیصد افراد نے مذہبی خانے کو پر کرتے ہوئے اپنے مذہب کے بارے میں آگاہ کیا چنانچہ اسلام کے مقابلے میں عیسائیت میں 13 فیصد کمی واقع ہوئی۔ اس تناسب سے قبل برطانیہ میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح 4ا عشاریہ 9 فیصد تھی۔ مگر 2021ء میں مسلمانوں کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ ہوا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2021ء کے مردم شماری کے نتائج میں لندن انگلستان کا واحد شہر ہے جہاں 25 فیصد افراد اپنے آپ کو مسیحی کے طور پر متعارف کرواتے ہیں۔ عیسائی فرقوں میں سب سے زیادہ Englican فرقہ متاثر ہوا ہے۔ 2000ء کے مقابلے میں اس فرقے کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس طرح برطانوی نوجوانوں کی دو تہائی تعداد کا مذہب سے یقین ہی اٹھ چکا ہے کہ انکے نزدیک مذہب کی بندش سے انکی معاشرتی آزادی سلب ہونے کا احتمال ہے جو انہیں کسی بھی طور پر قابل قبول نہیں۔ رپورٹ کے مطالعہ کے بعد فریڈ کا میں نے دوبارہ شکریہ ادا کیا کہ بحیثیت مسلم میرے لئے وہ ایک غیرمعمولی خبر لے کر آئے تھے۔ یہ جانتے ہوئے کہ برطانیہ میں بھی مسلمان اب مختلف دھڑے بندیوں کا شکار ہیں‘ دل ہی دل میں یہ خوف  لاحق تھا کہ برطانیہ میں تیزی سے مقبول ہونیوالے دین اسلام کے تناظر میں وہ مجھ سے کہیں یہ نہ پوچھ لیں کہ انگلستان میں قائم بعض مساجد میں نمازیوں اور مساجد کمیٹیوں کے عہدیداران  میں پائے جانیوالے عدم اتفاق کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟ ابھی اس متوقع سوال کی کڑیاں میں ملاہی رہا تھا کہ فریڈ نے بغیر لگی لپٹی یہ پوچھ لیا کہ اسلام کے واضح اصولوں میں انسانیت کی فلاح‘ امن اور بھائی چارہ کا فروغ اور اس رب العالمین سے مانگنے کے تمام تر طریقے جب موجود ہیں تو آپکی یہاں قائم بعض مساجد میں نمازیوں اور کمیٹی اراکین کے مابین عدم اتفاق کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ میرا اندازہ درست ثابت ہوا۔ سوال اس کا سو فیصد درست تھا  مگر  میں فریڈ کو الجھانا اس لئے بھی نہیں چاہتا تھا کہ میرے علاقے کی جامع مسجد کے باہر فٹ پاتھ پر نماز جمعہ ادا ہوتے اس نے دیکھ لی تھی۔ وہ اس تذبذب کا شکار تھا کہ مسجد جب موجود ہے‘ نماز جمعہ بھی ادا کی جاتی ہے تو پھر مسجد کے باہر فٹ پاتھ پر مسلمان نماز جمعہ ادا کرنے پر آخر کیوں مجبور ہیں۔ بنیادی طور پر یہی وہ سوال تھا جو علاقے کے مسلمان پچھلے پانچ برس سے مسجد کمیٹی عہدیداران سے پوچھ رہے ہیں۔ میں نے فریڈ کو بتایا کہ اصل معاملہ مسجد کمیٹی کے بعض عہدیداران  میں صدارت اوراختیارات کو کنٹرول کرنے کا ہے۔ کووڈ کے بعد اللہ کا یہ گھر بظاہر تو ہر مسلمان نمازی کیلئے کھل چکا ہے مگر مسجد کمیٹی کے بعض عہدیداران کے معاندانہ طرز عمل کی بناء پر علیحدگی اختیار کرنے والے پرامن مقامی نمازیوں کی ایک بڑی تعداد مسجد سے باہر فٹ پاتھ پر نماز جمعہ ادا کرنے کیلئے اس لئے بھی مجبور ہے کہ کمیٹی نے مبینہ طور پر بعض نمازیوں کو مسجد کے اندر نماز ادا کرنے کی ممانعت کر رکھی ہے اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس سے نمازی عدم اتفاق کا شکار ہیں۔ ماضی میں مسجد کمیٹی اور مسجد سے باہر نماز جمعہ ادا کرنے والے نمازیوں کے نمائندوں کے مابین مقامی کمیونٹی لیڈروں نے صلح کی کاوشیں بھی کیں مگر افسوس! کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ پولیس عرصہ پانچ برس کے دوران متعدد بار مسجد آچکی ہے تاکہ مسجد کمیٹی عہدیداروں اور نمازیوں کے مابین امن و امان کی صورتحال کو قائم رکھا جا سکے۔ مجھے امید ہے کہ آپ کو آپکے سوال کا جواب مل گیا ہوگا۔ میں نے فریڈ سے مسکراہتے ہوئے کہا۔ ’’ویری سیڈ سچویشن‘‘  مگر آپ کو یہ آگاہ بھی کرتا چلوں کہ ایسی نوعیت کا عدم اتفاق صرف مساجد میں ہی نہیں مسیحی فرقوں میں بھی ہے۔ یوں بھی انسانی کمزوری ہے کہ کسی بھی اعلیٰ عہدے اور پروٹوکول کے حصول کیلئے انسان کچھ بھی کرنے پر رضامند ہو جاتا ہے کہ ’’کرسیِ صدارت‘‘ کا اپنا ایک ا لگ ہی سواد ہے۔ یہ سنتے ہی فریڈ نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا اور اجازت لے لی۔ 

ای پیپر-دی نیشن