• news

کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف ملک بھر میں آپریشن کیا جائے


کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ایک شر پسند گروہ ہے جس کا مقصد تخریب کاری کے ذریعے فتنہ پھیلانا ہے۔ یہ گروہ پاکستان دشمن قوتوں کا آلۂ کار بنا ہوا ہے اور انھی کے ایما پر پاکستان کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتا ہے۔ ان کارروائیوں سے ایک طرف معصوم شہریوں کے جان و مال کا نقصان ہوتا ہے تو دوسری جانب اسلام جیسے امن پسند مذہب کا امیج منفی طور پر متاثر ہوتا ہے کیونکہ کالعدم ٹی ٹی پی سے وابستہ لوگ مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں۔ پاک فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں نے اس شر پسند گروہ کے خاتمے کے لیے آپریشن ضربِ عضب اور آپریشن ردالفساد جیسی بھرپور عسکری کارروائیاں کر کے ملک کے طول و عرض میں عوام کے جان و مال کے تحفظ اور امن و سلامتی کے قیام کو یقینی بنایا۔ اس سلسلے میں ہمارے سکیورٹی اداروں نے بہت سی قربانیاں بھی دیں جن کو پوری قوم قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
حال ہی میں کالعدم ٹی ٹی پی نے حکومتِ پاکستان کے ساتھ کیا گیا جنگ بندی کا معاہدہ ختم کرتے ہوئے اپنے جنگجوؤں کو ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کا حکم دیا ہے۔ حکومت اور کالعدم تنظیم کے درمیان مذاکرات جس مسئلے پر تعطل کا شکار ہوئے تھے وہ وفاق کے سابقہ زیر انتظام علاقوں یعنی فاٹا کا صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام تھا۔ ٹی ٹی پی اس بات پر مصر تھی کہ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم نہ کیا جائے۔ فریقین کے مابین مذاکرات گزشتہ برس اکتوبر میں شروع ہوئے تھے اور اس وقت سابق وزیراعظم عمران خان نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ اگر کالعدم ٹی ٹی پی سے وابستہ افراد ہتھیار پھینک دیں تو حکومت انھیں معاف کر کے عام شہریوں کی طرح زندگی گزارنے کا موقع دے گی۔ مذاکرات افغانستان میں ہورہے تھے، لہٰذا طالبان کی عبوری افغان حکومت اس سلسلے میں ثالث کا کردار ادا کررہی تھی۔
مذاکرات کے دوران حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان مکمل جنگ بندی کا معاہدہ بھی ہوا تھا جو یکم سے 30 نومبر 2021ء تک نافذالعمل رہا۔ بعدازاں، کالعدم تنظیم نے یہ کہہ کر معاہدے کی مدت میں توسیع سے انکار کردیا کہ حکومت نے ان سے کیے گئے وعدوں کی پاسداری نہیں کی۔ مبینہ طور پر حکومت نے ٹی ٹی پی کے ساتھ طے کیا تھا کہ وہ تنظیم کے حراست میں لیے گئے 102 افراد کو رہا کر کے ان کے سپرد کردے گی۔ تنظیم نے یہ الزام عائد کیا کہ حکومت نے ان افراد کو رہا کرنے کی بجائے ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت، سوات، باجوڑ، صوابی اور شمالی وزیرستان میں کارروائیاں کر کے کالعدم گروہ سے وابستہ مزید افراد کو مارا اور حراست میں لیا۔ مذاکرات کا عمل رواں برس کے وسط میں دوبارہ شروع ہوا تھا تاہم مذکورہ مسئلے پر عدم اتفاق کی وجہ سے مذاکرات ایک بار پھر تعطل کا شکار ہوگئے۔
اس تعطل کے بعد ستمبر کے مہینے سے کالعدم ٹی ٹی پی کی طرف سے ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک اور شمالی و جنوبی وزیرستان کے اضلاع میں حملوں میں تیزی لائی گئی جس کے بعد اکتوبر میں وفاقی وزارتِ داخلہ نے ہدایات جاری کی تھیں کہ ملک بھر میں کالعدم ٹی ٹی پی کے حملوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے، لہٰذا جہاں بھی تخریب کاری کی کسی سرگرمی کا اندیشہ ہو وہاں بھرپور کارروائی کی جائے۔ تب سے اب تک ایسے کئی واقعات پیش آچکے ہیں جن میں کالعدم تنظیم نے سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا تاہم سکیورٹی اداروں کی طرف سے شر پسندوں کے خاتمے کے لیے کارروائیاں جاری ہیں۔ اسی نوعیت کی ایک تازہ کارروائی میں سکیورٹی فورسز نے ڈیرہ اسماعیل خان میں 3 دہشت گرد کو ہلاک کردیا ہے جبکہ ایک زخمی ہوگیا۔ یہ کارروائی علاقہ گرہ مستان میں کی گئی جہاں دہشت گردوں نے خفیہ ٹھکانوں سے فورسز پر حملہ کیا۔ ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کی شناخت منیب، جنید الرحمن، شوکت کے نام سے ہوئی ہے۔ 
ادھر، پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے وادی تیراہ، ضلع خیبر کا دورہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ قوم کی حمایت سے تب تک جاری رہے گی جب تک ہم پائیدار امن اور استحکام حاصل نہیں کر لیتے۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ مادرِ وطن کے دفاع کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے گا اور امن کو خراب کرنے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی، کسی کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک کی محنت سے حاصل ہونے والی کامیابیوں کو روکنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ مسلح افواج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، جنرل عاصم منیر نے پاک افغان سرحد پر تعینات فوجیوں کے ساتھ دن گزارا اور افسران و جوانوں سے بات چیت کرتے ہوئے ان کے بلند حوصلے اور آپریشنل تیاریوں کی تعریف کی۔ آرمی چیف نے کہا کہ قبائلی عوام اور سیکورٹی فورسز کی بے شمار قربانیوں سے ریاست کی رٹ قائم ہوئی ہے۔
قبائلی عوام نے واقعی سکیورٹی فورسز کا ساتھ دے کر امن و امان قائم کرنے کے لیے سلسلے میں ایک مثال قائم کی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان لوگوں کے مسائل کے بارے میں جانے اور انھیں فوری حل کرنے پر توجہ دے تاکہ وہ کالعدم ٹی ٹی پی کے دوبارہ سر اٹھاتے ہوئے فتنے پر قابو پانے کے لیے پوری یکسوئی کے ساتھ سکیورٹی فورسز کی مدد کریں۔ علاوہ ازیں، آپریشن ضربِ عضب اور آپریشن ردالفساد کی طرز پر دہشت گرد عناصر کے خلاف ملک بھر میں ایک بھرپور عسکری کارروائی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس فتنے کو جڑ سے اکھاڑا جاسکے۔ اس سلسلے میں افغان عبوری حکومت کو یہ باور کرایا جانا چاہیے کہ امن و امان کا قیام صرف پاکستان ہی کی نہیں بلکہ افغانستان کی بھی ضرورت ہے اور اگر انھوں نے اس حوالے سے پاکستان کا ساتھ نہ دیا تو عالمی برادری ان کے مسائل حل کرنے کے لیے کبھی بھی ان کی مدد نہیں کرے گی۔

ای پیپر-دی نیشن