سید افضل حیدراور ان کی ’آخری گواہی‘
وہ آخری گواہی دیئے بغیر اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے ۔ ’’آخری گواہی ‘‘ کے نام سے وہ ایک کتاب لکھ رہے تھے ۔ جس میں انہوں نے ریڈکلف ایوارڈ کا سارا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا تھا۔ کم و بیش پچھلے پانچ برس سے وہ اس کے مسودے پر کام کررہے تھے ۔ اس کتاب کی کمپوزنگ کے انتظامات میرے سپرد تھے۔ اب وہ کسی پبلشر کی تلاش میں تھے۔ کبھی وہ سوچتے کہ اس اہم ترین کتاب کو وفاقی حکومت چھاپے ،کبھی سوچتے کہ اس کی طباعت کیلئے وہ چودھری پرویز الہٰی کو خط لکھیں۔ میں نے ان کو تین مرتبہ کتاب کے فائنل پرنٹ نکال کر دیئے ۔ اور وہ ان صفحات پر آخری نظر ڈالنے میں مصروف تھے۔ کہ داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔
میں نے اس کتاب کے بارے میں متعدد کالم لکھے ،اور اس کتاب کا خلاصہ قارئین کرام کے سامنے رکھنے کی کوشش کی۔ اس کتاب میں واضح کیا گیا ہے کہ ریڈکلف نے پنجاب کی بائونڈری کا تعین کرنے میں کس طرح ڈنڈی ماری اور کشمیر کو بھارت کے چنگل میں دینے کے لئے گورداسپور کا علاقہ کس عیاری سے بھارت کے سپرد کیا گیا ۔سید افضل حیدر کے والد گرامی سید محمد شاہ نامور وکیل تھے ،انہیں ریڈکلف کمیشن کے سامنے مسلمانوں کا کیس پیش کرنے کے لئے سر ظفراللہ خان کے ساتھ قائداعظم ؒ محمد علی جناح نے نامزد کیا تھا۔ سید محمد شاہ نے اس کیس کی تیاری میں عرق ریزی سے کام کیااور ہمارے دوست سعید آسی کے والد محترم محمد اکرم طورسے بھی نادر و نایاب ریکارڈ لے کر ریڈکلف کمیشن کے سامنے رکھا۔ سید محمد شاہ پاکپتن میں ایک معروف وکیل تھے۔ انہوںنے مسلم لیگ کی سیاست میں بھی سرگرم حصہ لیااور اس زمانے میں دو لاکھ روپے کی خطیر رقم قائد اعظم کو مسلم لیگ فنڈ کے لئے پیش کی ۔ اسے ستم ظریفی پر محمول کیجئے کہ پاکپتن کا علاقہ انگریزوں اور ہندوئوں کے ٹوڈیوں سے بھر ا ہوا تھااور وہ مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے طبقات پر ظلم و ستم کے پہاڑ گراتے رہے ۔ آج کے پاکستان میں انہی کی اولادیں اس علاقے کی سیاست پر حاوی چلی آرہی ہیں۔
لارڈ مائونٹ بیٹن نے وائسرائے کی حیثیت سے ریڈکلف کو بائونڈری کمیشن کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ اس شخص نے بائونڈری کمیشن کے پہلے چند اجلاسوں میں شرکت کی اور انتظامی امور پر بحث مباحثہ کیا ۔بائونڈری کمیشن کی باقاعدہ سماعت لاہور ہائیکورٹ کی بلڈنگ میں شروع ہوئی۔ لیکن اس سماعت کے دوران ایک لمحے کیلئے بھی ریڈکلف نے لاہور ہائیکورٹ کی بلڈنگ میں قدم نہیں رکھا۔ جسٹس شاہ دین نے ایک دن کمیشن میں شامل تمام ججوں کو والٹن ائرپورٹ پر طلب کیا ،ان کا کہنا تھا کہ وہ لارڈمائونٹ بیٹن کے جہاز میں بیٹھ کر پنجاب کی سرحدی تقسیم کے لئے نقشے پر لکیر کھینچنا چاہتے ہیں۔ جسٹس شاہ دین کا کہنا ہے کہ انہوں نے جہاز کے پائلٹ سے پوچھا کہ ہمارا روٹ کیا ہے ۔ اس پر پائلٹ نے پنجاب کا ایک نقشہ دکھایا ، جس پر پہلے سے ایک سرخ لکیر کھینچی گئی تھی اور اس لکیر کے مطابق فیروزپور،کھیم کرن،امرتسر، جالندھر اور گورداسپور کے علاقے بھارتی پنجاب میں شامل دکھائے گئے تھے۔ جسٹس شاہ دین نے یہ بات سر ظفر اللہ خان کو بتائی کہ ابھی تک کمیشن کی سماعت شروع بھی نہیں ہوئی کہ ریڈ کلف نے پنجاب کی تقسیم کا ایک فیصلہ کرلیا ہے ، جو کہ سراسر ایک گھاٹے کا سودا ہے ۔ جسٹس شاہ دین نے سرظفراللہ خان سے کہا کہ آپ اس اہم بات کی اطلاع فوری طور پر قائد اعظم تک پہنچائیں۔
سرظفراللہ خان نے سارا معاملہ مسلم اکابرین کے سامنے رکھااور چودھری محمد علی کو قائداعظم ؒ کے پاس بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔ چودھری محمد علی قائد اعظم سے دہلی جاکر ملے ،قائداعظم نے چودھری محمد علی کو ہدایت کی کہ وہ کمیشن کے یہ تمام تحفظات لارڈ مائونٹ بیٹن کو پیش کرے۔ چودھری محمد علی وائسرائے کے دفتر پہنچے۔ تو ان کے معاون لارڈاسمے کے کمرے میں انہیں انتظار کے لئے بٹھایا گیا۔ چودھری محمد علی کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی ، جب انہوں نے لارڈ اسمے کی دیوار پر بھی پنجاب کا وہی نقشہ دیکھا ، جس پر سرخ لکیر لگی ہوئی تھی۔ چودھری محمد علی نے لارڈ اسمے سے پوچھا کہ یہ سرخ لکیر کس نے اور کیوں لگائی ہے ۔؟لارڈ اسمے نے معصومیت سے جواب دیا کہ کسی بچے نے یہ لکیر لگادی ہوگی ۔ چودھری محمد علی نے واپس جاکر سارا قصہ قائداعظم کو سنایا تو قائداعظم نے کہا کہ وہ تو اپنی نشری تقریر میں ریڈکلف ایوارڈ کو قبول کرنے کا اعلان کرچکے ہیں ۔بہرحال یہ ساری تفصیل چودھری محمد علی کی خودنوشت میں موجود ہے ۔
15اگست 1947ء کو پاکستان اور بھارت دو ملک وجود میں آگئے ،مگر ابھی تک ان کی سرحدیں متعین نہیں کی گئی تھیں۔پنجاب اور بنگال کے دونوں علاقوں میں لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ کونسا حصہ بھارت کو ملے گا اور کونسا حصہ پاکستان میں شامل ہوگا۔ ریڈکلف اپنا یہ ایوارڈ دیئے بغیر واپس برطانیہ جاچکے تھے۔ سترہ اگست کو سر ظفراللہ خان نے سید محمد شاہ کو فون کیا اور بتایا کہ ریڈکلف کا ایوارڈ سامنے آگیاہے،جس کے مطابق گورداسپورکا علاقہ بھارت کو دے دیا گیا ہے ، اس کا مطلب یہ تھا کہ بھارت کو کشمیر سے زمینی رابطے کے لئے پٹھان کوٹ کی سڑک دان کردی گئی ہے ۔ اسی سڑک کو استعمال کرتے ہوئے بھارت نے اپنی فوج جارحیت کے لئے کشمیر میں داخل کی تھی ۔
یہ تو ہے ریڈکلف ایوارڈ کی کہانی،جس کی ساری کڑیاں سید افضل حیدر نے اپنی کتاب’’آخری گواہی‘‘ میں بیا ن کردی ہیں ۔ مگر ایک دن انہوں نے فون کرکے مجھے انتہائی حیرت زدہ کرڈالا کہ بائونڈری کمیشن کا ایوارڈ اس وقت سامنے آیا ، جب ریڈکلف بھارت میں موجود نہیں تھا اور اس ایوارڈ کا اعلان ریڈکلف کے بجائے لارڈ مائونٹ بیٹن نے کیا تھا۔ جو کہ سترہ اگست کو بھارت کا گورنر جنرل تھا۔ بھارت کے گورنر جنرل کو کسی نے یہ اختیار نہیں دیا تھا کہ وہ دونوں نئے ملکوں کی سرحدوں کا تعین کرے ۔ مگر عجب ستم ظریفی ہے کہ بھارت کے گورنر جنرل نے جو سرحدی ایوارڈ دیا ، اسے پاکستان نے من و عن اور بلاپس و پیش قبول کرلیا۔ سید افضل حیدر کا کہنا تھا کہ پاکستان کو آج بھی عالمی عدالت سے رجوع کرنا چاہئے اور بھارت کے گورنر جنرل کی طے کردہ سرحدوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے نئے سرے سے سرحدوں کے تعین کا مطالبہ کرنا چاہئے۔ پاکستان اور بھارت کی سرحدوں کا تعین سرریڈکلف کو پندرہ اگست سے پہلے پہلے کرنا چاہئے تھا، اگر اس ایوارڈ کا اعلان کرنے کا شوق لارڈ مائونٹ بیٹن کو ہی چرایا تھا ۔ تو وہ بھی اس ایوارڈ کا اعلان اس وقت کرتے ، جب وہ پورے برصغیر کے وائسرائے تھے ۔ مگر انہوں نے یہ اعلان سترہ اگست کو اس وقت کیا ، جبکہ وہ وائسرائے کے بجائے صرف بھارت کے گورنر جنرل کے فرائض سرانجام دے رہے تھے ۔ اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہوسکتی ہے ۔
سید افضل حیدر خالق حقیقی سے جاملے ۔ ان کی کتاب’’آخری گواہی ‘‘ کا مسودہ طباعت کے لئے بالکل تیار پڑا ہے ۔ یہ کتاب سربستہ رازوں کا خزینہ ہے ۔ کیا حکومت ِ پاکستان یا حکومت پنجاب اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے اس کتاب کی اشاعت کا اہتمام کرے گی ؟
٭…٭…٭