وفاق اور صوبوں میں ایک ساتھ انتخابات کروانیکی آئینی پابندی نہیں
چوہدری شاہد اجمل
chohdary2005@gmail.com
قومی افق
عمران خا ن کے حقیقی آزادی مارچ کے26نومبر کوراولپنڈی ہی میں اختتام پذیر ہو جانے سے جہاں ملک سے سیاسی بے یقینی کے بادل قدرے چھٹتے محسوس ہو رہے ہیں وہیں وفاقی حکومت نے بھی سکھ کا سانس لیا ہے اگرچہ عمران خان نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کی جو دھمکی اس مارچ کے اختتام پر دی تھی اس پر ابھی تک قائم ہیں لیکن ساتھ ہی پی ڈی ایم کی جماعتوں پر جلد انتخابات کے اعلان کے لیے دبائو بھی ڈال رہے ہیں دوسری جانب پی ڈی ایم اور اس کی اتحادی جماعتیں بھی مذکورہ دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل ہو نے کی صورت میں آئینی و قانونی پہلوئوں پر اپنا ہو م ورک مکمل کر چکی ہیں ،پی ڈی ایم کے اہم رہنما آفتاب خان شیر پائو نے واضح طور پر یہ کہا ہے کہ تمام صوبوں اور وفاق میں ایک ہی وقت میں انتخابات کرانا کو ئی آئینی پابندی نہیں ہے اگر کسی صوبے کی اسمبلی تحلیل ہو گی تو وہاں انتخابات کرائے جا سکتے ہیں انہوں نے اس حوالے سے ہمسائیہ ملک بھارت کی مثال دی جہاں ہر ریاست میں الگ انتخابات ہو تے ہیں،عمران خان کی طرف سے اسمبلیاں تحلیل کر نے کی کوئی حتمی تاریخ نہیں دی گئی بلکہ صرف یہ کہا گیا کہ وہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اپنے وزرائے اعلی اور پارٹی کی پارلیمانی کمیٹی سے مشاورت کریں گے۔ عمران خان اپنی پارٹی اور اتحاد کے رہنمائوں اور خیبرپختونخوا دونوں صوبوں کے وزرائے اعلی سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔حکمران جماعتیں بار بار یہ بات دہرا رہی ہیں کہ جب تک عمران خان کا رویہ اور بات کرنے کا انداز درست نہیں ہوگا ان کے مطالبات پر کوئی توجہ نہیں دی جائے گی۔اس وقت عمران خان کے رویے سے یہ لگتا ہے کہ ان کے رویے میں تبدیلی آرہی ہے اور وہ پی ڈی ایم اور اس کی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات پر بیٹھنے کے لیے نا صرف تیار نظر آرہے ہیں بلکہ اپنے ماضی کے مطالبات سے بھی کسی حد تک ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار ہیں ، پی ٹی آئی کے اندر بھی اسمبلیاں تحلیل کر نے کے معاملے پر مختلف آراء نظر آتی ہیں بعض رہنما یہ سمجھتے ہیں اگر اسمبلیوں سے نکل کر بھی جلد انتخابات کا مقصد پورا نہ ہوا تو پی ٹی آئی کو نقصان ہو سکتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ فوری طور پر اسمبلی کی تحلیل کے بھی حق میں نہیں۔لگتا ہے کہ ملک میں ایک ادارے کی اعلیٰ سطح کی تقرری کے ہو جا نے اور اس معاملے میں عمران خان کی کسی بات کو نہ ماننے نے عمران خان سمیت پی ٹی آئی کی قیادت کو یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ اگر انہوں نے اپنے رویے میں لچک پیدا نہ کی تو سب کچھ ان کے ہاتھ سے نکل جا ئے گا اور وہ ''ہاتھ ملتے''رہ جائیں گے ،اسی لیے اسمبلیاں تحلیل کر نے کے معاملے میں بھی دیر کی جا رہی ہے کیونکہ وفاقی حکومت کے پاس خیبرپختونخوا اور پنجاب کے وزرائے اعلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے ساتھ ساتھ صوبوں میں گورنر راج کے نفاذ جیسے آپشنزموجود ہیں لیکن اس سے سیاسی بحران میں مزید اضافہ ہو گا۔پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین سابق صدر آصف علی زرداری ان دونوں آپشنز پر کا م کرتے نظر آرہے ہیں وہ آزاد ارکان کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے رابطے کر رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ پی ٹی آئی کے ساتھ بات چیت کے عمل کو آگے بڑھا نے پر بھی تیار نظر آتے ہیں ، وفاقی حکومت اب کسی نئے سیاسی بحران کی متحمل بھی نہیں ہو سکتی کیو نکہ معاشی بحران پہلے ہی ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے جس سے نمٹنے کے لیے حکومت ہاتھ کوششیں کر رہی ہے۔پاکستان میں جاری عدم استحکام کے باعث آئی ایم ایف سے مذاکرات میں تاخیر ہوسکتی ہے۔ مسلسل سیاسی محاذ آرائی کی وجہ سے ملک کا پورا نظام کمزور ہو چکا ہے اور سیاسی محاذ آرائی کے تھمنے کے آثار نظر نہیں آتے۔ عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ پنجاب اور خیبر پختونخواکی اسمبلیاں تحلیل کرکے وہ حکومت کو جلد انتخابات پر مجبور کر سکتے ہیں لیکن اگر اس سے ملک میں معاشی بحران مزید شدید ہو گیا تو شائد انتخابات کے بجائے صورتحال کسی ''اور''طرف چلی جائے اور معاملات حکومت اور اپوزیشن کسی کے بھی ہاتھ میں نہ رہیں ،عمران خان کے لانگ مارچ کی نا کا می کے بعد وفاقی حکومت اور پی ٹی آئی مخالف قوتوں کے حوصلے بڑھے ہیں اس لیے اب وہ عمران خان کے مطالبات کو ماننے کے لیے اتنی آسانی سے تیار نہیں ہو ں گے،موجودہ صورتحال میں حکمران اتحاد عمران خان کی چالوں کو دیکھ کر اپنے ''پتے''کھیل رہا ہے کیونکہ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے لیے اسمبلیاں تحلیل کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا اس حوالے سے انہیں سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا اپنی پارٹی اور اتحادیوں کی جانب سے کر نا پڑے گا۔اگر خیبرپختونخوا اور پنجاب میں اسمبلیاں تحلیل ہوتی ہیں تو ان صوبوں میں نئے انتخابات وفاق میں پی ڈی ایم حکومت کی نگرانی میں ہوں گے جبکہ تحریک انصاف پہلے ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان پر عدم اعتماد کا اظہار کر چکی ہے۔ اس معاملے پر عمران کی اپنی پارٹی کے اندر ہی مستقبل کی حکمت عملی کے حوالے سے اختلافات پائے جاتے ہیں پارٹی کا ایک برا حصہ یہ سمجھتا ہے کہ حکومت تحلیل کرنے کا فیصلہ زیادہ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔عمران خان نے اپنے مطالبات کی تکمیل کے لیے جو کچھ کرنا تھا وہ کیا لیکن اس سب کے باوجود انھیں کچھ نہیں ملا۔بظاہر پرویز الہی اور عمران خان تمام سیاسی معاملات پر ہم خیال نظر آتے ہیں تاہم کیا وزیرِاعلی پنجاب پرویز الہی کی جانب سے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے متضاد حالیہ بیانات اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ دونوں اتحادیوں کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں۔اور اگر ایسا ہے تو یہ عمران خان کی جلد انتخابات کی تاریخ حاصل کرنے کی حکمتِ عملی پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔
موجوہ حالات میں مذاکرات اور ڈائیلاگ ہی وہ ذریعہ ہے جس کی مدد سے ملک کو موجودہ بحرانوں سے نکالا جا سکتا ہے جب تک ملکی قیادت اس بات کو نہیں سمجھے گی حالات کبھی بہتر نہیں ہو سکیں گے۔پی ڈٰ ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن عمران خان زیر قیادت پی ٹی آئی سے مذاکرات کے حوالے سے ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات میں پی ڈی ایم کے سربراہ نے سابق وزیر اعظم سے مذاکرات کی پیشکش کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کو کبھی بھی عمران کے ساتھ نہیں بیٹھنا چاہئے کیونکہ اس نے پی ڈی ایم کے رہنمائوں کو لٹیرے اور چور کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ وہ حکومت کے ساتھ کبھی نہیں بیٹھیں گے۔ادھر پی ٹی آئی کے سینئر رہنما فواد چوہدری نے حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان پس پردہ مذاکرات کا عندیہ دیتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ سابق حکمران جماعت نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے قبل از وقت عام انتخابات کا مطالبہ کیا ہے اور وفاقی وزیر نے پی ٹی آئی سے باضابطہ مذاکرات کی یقین دہانی کرائی ہے۔پی ٹی آئی کے ایک اور رہنما اسد عمر بھی دونوں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے خیال سے اتفاق نہیں کرتے اور ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ اسمبلیوں کی تحلیل نقصان دہ ہو گی۔ پی ڈی ایم نے موجودہ سیاسی ڈیڈ لاک کے خاتمے کے لیے عمران خان کو بات چیت میں شامل کرنے پر آمادگی ظاہر کی لیکن کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ پی ٹی آئی اپنی شرائط سے دستبردار ہو جائے۔ اگر عمران خان خود مذاکرات میں شرکت کرتے ہیں تو حکمران اتحاد پی ٹی آئی کے ساتھ غیر مشروط بات چیت کے لیے تیار لگتا ہے۔
دوسری جانب سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ(ن)کے قائد نواز شریف نے پنجاب میں پارٹی کے صوبائی سربراہ کو انتخابات کے لیے موزوں امیدواروں کے نام شارٹ لسٹ کرنے کی ہدایت جاری کر دی ہے۔ انتخابات کی تیاریاں شروع کرنے کے اقدام سے بظاہر یہ واضح ہوتا ہے کہ مسلم لیگ(ن)نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ انہیں پنجاب اسمبلی کی تحلیل کو روکنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔پاکستان نے 7ارب ڈالر کے اقتصادی بیل آؤٹ پیکج کے حصول میں تعاون کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف)کے 3 بڑے شیئر ہولڈرز سے تعاون طلب کرلیاہے،وزیر خزانہ اسحق ڈار اور ان کی ٹیم نے اسلام آباد میں موجود امریکا، چین اور برطانیہ کے سفیروں سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں اور انہیں ان تمام معاشی چیلنجز پر اعتماد میں لیا جوکہ بیشتر خارجی عوامل اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں مشکلات کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے خزانہ طارق باجوہ اور سیکریٹری خزانہ حامد یعقوب شیخ سمیت اقتصادی ٹیم نے یو این ڈی پی کے مشیر سر مائیکل باربر کے ہمراہ امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم، چینی سفیر نونگ رونگ اور برطانوی ہائی کمشنر کرسچن ٹرنر سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں۔وزارت خزانہ کی جانب سے سفارتکاروں اور کاروباری حلقوں کو یقین دہانی کروائی گئی کہ پاکستان تمام تر مشکلات کے باوجود آئی ایم ایف پروگرام کے لیے پرعزم ہے اور معاشی ایمرجنسی کی افواہوں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔