صحیح وقت پر صحیح پتے شوکروانا پر ویز الہی کا امتحان
ندیم بسرا
ملکی سیاست کی بیٹھکیں لاہور میں ہو تو رہی ہیں مگر مسائل جوں کے توں موجود ہیں۔پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں شائد عمران خان کو دوڑا،دوڑا کر تھکانے کے موڈ میں ہیں ،مگر کپتان اور اس کے کھلاڑی ہر بار یہی کہتے ہیں کہ وہ جم کے کھڑا ہے۔ادھر پی ڈی ایم کی اپنی نشستوں میں اختلافات کی کہانیاں بھی سامنے آنا شروع ہوگئیں ہیں اور مولانا فضل الرحمن کی پی ڈی ایم کی صدارت پر بھی کئی سوالیہ نشانات اٹھ رہے ہیں۔بتایا یہی گیا ہے کہ ایم پی ڈی ایم کی حالیہ ایک بیٹھک میں ایک دوسرے سے کافی تلخ سوالات کئے گئے ،اس کی ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ حکومت پر الیکشن کی تاریخ دینے کے حوالے سے کافی زیاد ہ دباؤ ہے ،اگر کوئی ایسے ڈائیلاگ ہورہے ہیں اور اگر عام انتخابات کی تاریخ واقعی قریب دی جارہی ہے۔ اس صورت حال میں سیاسی جماعتیں پی ڈی ایم اتحاد سے فورا ًعلیحدہ ہونا چاہیں گی۔ ایک وجہ تو اختلافات کی یہ ہوسکتی ہے کہ پی ڈی ایم کی جماعتیں مشترکہ الیکشن لڑ نہیں سکتے اوراگر وہ مشترکہ اتحاد بنا کر انتخابات میں اترتی ہیں توانہیں پہلا کام سیٹ ایڈجسٹمنٹ والا کرنا ہوگا جو یقیناً ایک کڑوا گھونٹ ہے۔یہ کوئی بھی کرنے کو تیار نہیں ہوگی کیونکہ پیپلز پارٹی،ن لیگ،جے یو آئی ف،باپ ،اے این پی سمیت دیگر سیاسی جماعتیں اپنی سیٹ دوسرے جماعت کے امیدوار کو نہیں دے گی ۔سالہاسال سے پارٹی کے ہیڈ اپنے رہنماؤں کو ٹکٹ کے سہارے تو ہی ساتھ رکھے ہوتے ہیں انہیں یہی سہار ا دیا ہوتا ہے کہ انہیں ایم پی اے یا ایم این اے کی ٹکٹ دی جائے گی۔لہذاپی ڈی ایم کا غیر فطری سیاسی اتحاد ہے ،موجودہ دنوں میں کسی بھی وقت ختم ہوسکتاہے۔دوسری جانب آصف علی زرداری،نواز شریف ، مولانا فضل الرحمن سمیت دیگرپی ڈی ایم قائدین کو بخوبی اندازہ ہے کہ دوہزار تیئس کے عام انتخابات میں ان کا مقابلہ صرف پی ٹی آئی کے امیدوراوں سے ہی ہونا ہے۔دوسری جانب عمران خان کا پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیوں کے تحلیل کا فیصلہ بھی یک طرفہ ہی معلوم ہورہا ہے اور اس کا مقصد شہباز شریف اور ان کی ٹیم پر دباؤ ڈالنا ہی ہے بظاہر جس کو ٹالنے کے لئے مسلم لیگ ن بھی اپنی حکمت عملی بنارہی ہے اور پی ٹی آئی کے ایم پی ایز سے مسلسل رابطوں میں بھی ہے اور مسلم لیگ ق کے کچھ ایم پی ایز کو بھی چودھری شجاعت حسین کے ساتھ بٹھانے کا دعوی ن لیگ کے حلقے کررہے ہیں ،اس قسم کی چہ میگیوئیاں لاہور کے سیاسی حلقوں میں ہورہی ہیں کہ وزیراعلی پنجاب چودھری پرویز الہی نے عمران خان کو کہا ہے کہ دو سے تین ماہ کا وقت دیا جائے اس کے بعد اسمبلی کو تحلیل کردیا جائے ،جس پر عمران خان نے شائد دبے الفاظ میں کچھ کہا تو نہیں مگر چودھری پرویز الہی کے ساتھ اپنے رہنماؤںاسد عمر ،فواد چودھری کو مسلسل رابطوں کا کہا ہے۔عمران خان کا پنجاب اسمبلی توڑنے کے بیان کے بعد مسلم لیگ ن کے رہنما بھی میڈیا کی زینت بنے اور کافی عرصے کے بعد حمزہ شہباز بھی منظر عام پرآئے اور پارٹی کارکنوں سے ملنے کی خبریں سامنے آئیں ،اس سے قبل جب سے پنجاب کی حکومت ختم ہوئی وہ سیاسی تنہائی کا شکار ہو کر رہ گئے تھے کیونکہ پارٹی کی کمان کے فیصلے لندن سے ہورہے تھے حتی کہ لاہور کی سطح کے فیصلے بھی لندن سے ہورہے تھے جس کے بعد حمزہ شہباز نے گوشہ نشینی اختیار کرلی۔پنجاب میں ان ہاس تبدیلی کے اشارے کے بعد اچانک سے حمزہ شہباز متحرک ہوئے کیونکہ انہیں کسی ذرائع سے دوبارہ اقتدار کی خوش خبری دی جارہی تھی کیونکہ مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ وفاق کی حکومت اپنا ستمبر تک حکومت کا مدت کو دورانیہ پورا کرے گی اگر ایسا ہوتا ہے تو پنجاب میں ن لیگ بھی مزید چھ ماہ حکومت کا موقع حاصل کرسکتی ہے۔ اگر آصف علی زرداری اپنے فارمولے سے ان ہاؤس تبدیلی میں کامیاب ہوجائیں جو فی الحال مشکل نظر آتا ہے اس صورت حال میں ایک امتحان چودھری پرویز الٰہی کا بھی ہے کہ وہ پنجاب کی حکومت کی باقی ماندہ مدت کو کیسے بچانے میں کامیاب ہو تے ہیں، اگر وہ عمران خان کو قائل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ پنجاب کی اسمبلیوں کے تحلیل کے فیصلے میں نظر ثانی کریں اور وہ ایسا کروالیتے ہیں تو یقینی طور پر دوہزار تئیس کے انتخابات میں چودھری پرویز الٰہی اور ان کی جماعت پی ٹی آئی کی بڑی اتحادی جماعت ہو سکتی ہے یا وہ پی ٹی آئی میں شمولیت بھی اختیار کرسکتے ہیں اس کے لئے ضروری یہ ہے کہ چودھری پرویز الہی ’’صحیح وقت میں اپنے صحیح پتے شو‘‘کریں۔کیونکہ کہا یہی جاتا ہے کہ ’’سیاست میں تولہ نہیں گنا جاتا ہے‘‘۔