چینی صدر کا دورۂ ریاض: خطے میں تبدیلی کا پیش خیمہ؟
چین کے صدر شی جن پنگ سعودی عرب کے تین روزہ دورے پر ہیں۔ ریاض آمد پر ان کا شاندار استقبال کیا گیا، توپوں کی سلامی دی گئی اور جنگی طیاروں کے پروٹوکول میں چینی صدر کے طیارے کو ایئرپورٹ پہنچایا گیا۔ یہ سب یقینا کسی عزیز ترین حکمران کے استقبال کیلئے کیا جاتا ہے جس کا مقصد دنیا کا یہ پیغام دینا ہوتا ہے کہ انکے ساتھ ہمارے تعلقات بہت خاص ہیں۔ ریاض پہنچنے پر شی جن پنگ نے بھی اظہارِ مسرت کیا اور کہا کہ 6 سال بعد دوبارہ سعودی عرب کا دورہ کرنے اور چین عرب سربراہی اجلاس اور چین خلیج تعاون کونسل کے پہلے سربراہی اجلاس میں شریک ہو کر انھیں بہت زیادہ خوشی ہو رہی ہے۔ اس اجلاس میں پاکستان کا نمائندہ وفد بھی شریک ہے۔ چینی صدر نے کہا کہ چین اور سعودی عرب کے درمیان دوستی، شراکت داری اور بھائی چارے کا گہرا رشتہ ہے، 32 سالہ سفارتی تعلقات کے بعد دونوں ممالک نے اپنے تعلقات کو آئے دن مضبوط سے مضبوط تر کیا ہے۔ شی جن پنگ نے سعودی عرب اور چین کے درمیان 2016ء میں قائم ہونیوالی سٹرٹیجک شراکت داری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہماری شراکت داری نے دونوں ممالک کے عوام کو فائدہ پہنچایا اور خطے میں امن، استحکام، خوشحالی اور ترقی کے فروغ میں بھرپور کردار ادا کیا۔اس دورے کے دوران سعودی اور چینی کمپنیوں نے گرین انرجی، گرین ہائیڈروجن، فوٹو وولٹک انرجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، کلاؤڈ سروسز، ٹرانسپورٹیشن، لاجسٹکس، طبی صنعتوں، ہاؤسنگ اور تعمیراتی فیکٹریوں کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے 34 معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ صدر شی جن پنگ کو سعودی چین انویسٹمنٹ سمٹ میں شرکت کی دعوت سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے دی تھی۔ شاہ سلمان کی سربراہی میں ہونیوالی کانفرنس میں سعودی ولی عہد اور وزیراعظم محمد بن سلمان بھی شریک ہونگے۔ اس کانفرنس اور چینی صدر کے دورے کو دنیا بہت اہمیت دے رہی ہے۔ سعودی عرب کے امریکا کے ساتھ تعلقات کچھ کشیدہ ہیں۔ اس کی وجہ محمد بن سلمان کی جانب سے امریکا کی ’حکم عدولی‘ ہے۔ سعودی عرب نے خطے میں پٹرول کی قیمتیں مستحکم کرنے کیلئے پیداوار میں کمی کا فیصلہ کیا تھا، جسے امریکا نے پسند نہیں کیا اور سعودی عرب کو پیدوار کم کرنے سے باز رہنے کیلئے کہا لیکن محمد بن سلمان آج کل جس پالیسی پر عمل پیرا ہیں وہ ’سب سے پہلے سعودی عرب‘ ہے۔ اس لیے محمد بن سلمان ہر معاملے میں سعودی عرب کا فائدہ دیکھ رہے ہیں۔
چینی صدر کے حالیہ دورے نے واضح کر دیا ہے کہ چین خطے کے ممالک کے ساتھ بہتر معاشی تعلقات کا خواہاں ہے۔ اس کیلئے چینی صدر کا حالیہ دورہ جہاں سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی مضبوطی کا باعث ہے وہیں دیگر عرب ممالک کے سربراہان کے ساتھ بھی معاشی معاہدے ہونے کا قوی امکان ہے۔ چینی صدر کا یہ تین روزہ دورہ امریکا کے سینے پر مونگ دلنے کے مترادف ہے اور امریکا کی کیفیت دیکھنے والی ہے۔ خطے کے دیگر ممالک کا جائزہ لیا جائے تو چین کے ایران کے ساتھ بھی بہترین تعلقات ہیں۔ پاکستان کی دوستی ہمالیہ سے بلند، سمندر سے گہری اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے۔ روس کیساتھ چین کے تعلقات بھی نمایاں اہمیت کے حامل ہیں۔ ترکی بھی اس بلاک میں ہی کھڑا دکھائی دے رہا ہے۔ عراق بھی امریکی انخلا کیلئے سنجیدہ ہے اور عراقی وزیراعظم محمد شیاع السوڈانی اس حوالے سے اہم فیصلے کر چکے ہیں۔ عراق میں تعینات امریکی سفیر اس حوالے سے بہت ہاتھ پاؤں مار رہا ہے اور امریکی سفیر اب تک السوڈانی سے 6 بار ملاقات کر چکا ہے۔ السوڈانی نے وزیراعظم بننے کے بعد ایسے افراد کو فوجی اور سکیورٹی عہدوں سے ہٹا دیا جو امریکا کے حامی سمجھے جاتے تھے اور ان کی جگہ دیانتدار اور آزادانہ سوچ کے مالک افراد کو تعینات کیا۔
ایسی صورتحال میں سعودی عرب کا اس غیر علانیہ بلاک میں شامل ہونا جہاں خطے کی معاشی مضبوطی کا باعث بنے گا وہیں یہ امت مسلمہ کی ترقی کا سبب بھی ہوگا۔ اس سے ایران اور سعودی عرب قریب آ سکتے ہیں۔ امریکا کی جانب سے دونوں مسلم ممالک میں پائی جانے والی غلط فہمیاں دور ہو سکتی ہیں۔ اگر یہ غلط فہمیاں دور ہو جائیں تو امت کی وحدت کی بے نظیر مثال قائم ہو سکتی ہے۔ توقع تو کی جا سکتی ہے کہ خطے میں تبدیلی آئیگی لیکن امریکی بھی کچی گولیاں نہیں کھیلتے، وہ محمد بن سلمان کو مجبور کریں گے کہ وہ ان کے بلاک سے نہ نکلیں، اور اس کیلئے وہ انھیں مراعات کا لالچ بھی دے سکتے ہیں۔ لالچ میں نہ آنے پر انھیں ڈرایا بھی جا سکتا ہے۔ پیٹرو ڈالر معاہدہ جو امریکا اور سعودی عرب کے درمیان ہے، اس کا اب اختتام دکھائی دے رہا ہے۔ یہ معاہدہ 1974ء میں امریکی صدر رچرڈ نکسن نے سعودی عرب کے ساتھ کیا تھا جس میں طے پایا تھا کہ سعودی عرب کی تیل کی برآمدات کی ادائیگی ڈالر میں ہوگی اور اس معاہدے میں ڈالر کی قیمت 3 اعشاریہ 75 ریال طے کی گئی تھی۔ یہ بھی طے پایا تھا کہ سعودی عرب کے معاشی حالات جیسے بھی ہوں، ڈالر اور ریال کی تقابلی قیمت یہی رہے گی۔ یہ بھی شنید ہے کہ چین سعودی عرب کو یوان میں ادائیگی کریگا۔ اس سے بھی ایسا لگ رہا ہے کہ پیٹرو ڈالر معاہدہ واقعی اپنی موت مرنے جا رہا ہے۔ چین اور سعودی عرب میں یہ معاہدے اور تعلقات اچھی خبر ہیں لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ محمد بن سلمان امریکی دباؤ کے سامنے ٹھہر پاتے ہیں یا نہیں۔