ٹیسٹ کرکٹ کو دلچسپ بنانے کے لیے بین سٹوکس کا شکریہ
حافظ محمد عمران
’’ڈینس کومپٹن نے کہا تھا کہ ٹیسٹ کرکٹ صرف ایک میچ نہیں بلکہ دو ملکوں کی جنگ ہوتی ہے۔‘‘ ’’ڈیوک آف لنگٹن‘‘ نے 1815ء میں واٹر لو کے مقام پر نپولین بونا پارٹ کو شکست دی تو اُن سے پوچھا گیا کہ آپ نے یہ جنگی حکمتِ عملی کہاں سے سیکھی تو ’’ڈیوک آف ولنگٹن‘‘ کا جواب تھا کہ میں نے یہ جنگی حکمتِ عملی ’’ایٹن سکول‘‘ کے کرکٹ گرائونڈ سے سیکھی ہے۔‘‘
اب آپ راولپنڈی میں کھیلا جانے والاٹیسٹ میچ دیکھیں اُس میں بین سٹوکس کی کپتانی دیکھیں اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی حکمتِ عملی اور پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم کے فیصلوں کو دیکھیں تو آپ کو دونوں میں زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا۔ ایک ایسا کپتان جو انگلینڈ سے آیا ہے وہ ہر حال میں ٹیسٹ میچ کو نتیجہ خیز ، دلچسپ اور شائقین کی توجہ حاصل کرنے والا کھیل بنانا چاہتا ہے وہ اس مقصد میں اپنی فتح یا شکست کو ایک طرف رکھ کر مخالف پر اس انداز سے حملہ آور ہوتا ہے کہ اسے میچ کو نتیجے کی طرف لیجانے پر مجبور کر دیتا ہے۔ بین سٹوکس نے ’’ڈینس کومپٹن‘‘ کے تاریخی الفاظ کو تازہ کیا اور انہوں نے اپنے فیصلے سے ڈیوک آف ولنگٹن کی بھی یاد تازہ کر دی۔ بین سٹوکس کی کپتانی نے یہ ثابت کیا ہے کہ کرکٹ کی حکمتِ عملی کسی بھی طریقے سے جنگی حکمتِ عملی سے مختلف نہیں ہوتی۔ بین سٹوکس نے جس شاندار انداز میں قیادت کے فرائض انجام د ئیے انہوں نے راولپنڈی ٹیسٹ کو ناصرف فیصلہ کن بنایا بلکہ 3 میچوں کی سیریز میں 1-0 سے برتری حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوئے۔ انہوں نے دلیرانہ انداز میں اننگز ڈیکلیئر کی پھر غیر معمولی انداز میں فیلڈرز کو کھڑا کیا ، پاکستان کے بلے بازوں کو لالچ دیا کہ رنز کرو، جیت کی طرف جائو ، اپنی نصف بائولنگ کو اس طرح سے استعمال کیا کہ پاکستان اپنے میدانوں پر کھیلنے کے باوجود یوں لگ رہا تھا کہ جیسے کسی اور ملک میں کھیل رہا ہے۔ انگلینڈ کے پاس نہ تو کوئی بہت اچھا سپنر تھا نہ ہی انہیں اپنے نمایاں فاسٹ بائولرز کی خدمات حاصل تھیں لیکن اس کے باوجود انگلش ٹیم نے پاکستان کو 2 مرتبہ آئوٹ کیا ایک ایسی پچ جہاں پر انگلینڈ نے پاکستان کے خلاف جارحانہ انداز میں بیٹنگ کی۔ پاکستان کے بائولرز پنڈی میں بے بس دکھائی دئیے لیکن انگلینڈ کے بائولرز نے پاکستانی بلے بازوں کو بے بس کر دیا۔ اس ساری صورتحال میں میچ کو لیڈ کرنے کا سہرا صرف اور صرف مہمان ٹیم کے کپتان بین سٹوکس کو جاتا ہے۔ وہ ہر وقت حملہ کرتے رہے، مختلف انداز میں پاکستانی کھلاڑیوں کے ذہنوں پر دبائو ڈالتے رہے ، وہ انہیں ایک ہی وقت میں ناصرف رنز بنانے کے مواقع فراہم کرتے تھے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بلے بازوں کے ذہنوں پر آئوٹ ہونے کا خوف بھی برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ایک آسان بیٹنگ پچ جہاں انگلینڈ نے پہلے ہی دن میں چار سنچریوں سمیت پانچ سو سے زائد رنز سکور کیے جبکہ دوسری اننگز میں لگ بھگ ساڑھے سات رنز فی اوورز کے حساب سے سکور کیے وہاں پاکستانی بلے باز نہایت سست انداز میں بیٹنگ کرتے رہے نہ وہ ہدف حاصل کر سکے اور نہ ہی وکٹیں بچا سکے۔ پاکستان ہار کے خوف کے ساتھ میدان میں اُترا اور شکست سے بچتے بچتے ناکامی کا سامنا کرنا ہی پڑا۔ ایسی دفاعی حکمتِ عملی، خوف سے بھرپور سوچ ٹیسٹ کرکٹ کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ انگلش ٹیم کے کپتان بین سٹوکس نے ملتان ٹیسٹ میچ جیت کر سیریز اپنے نام کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ مہمان ٹیم کے کپتان ٹیسٹ کرکٹ میں مزید تصوراتی اور جدت پسندانہ کام کرنے کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
دوسری طرف پاکستان کے کپتان بابر اعظم ہیں جو میچ ہارنے کے بعد یہ شکوہ کر رہے ہیں کہ ٹرننگ پچ چاہیے تھی جو نہیں ملی، سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انگلینڈ نے جو کہ راولپنڈی جیسی پچز پر کھیلنے کے عادی نہیں ہیں، انہوں نے کوئی گلہ کیا ہے، وہ تو آئے ہیں اور انہوں نے اُڑا کر رکھ دیا ہے۔ اگر پاکستانی کپتان کو ٹرننگ پچ چاہیے تھی تو تین فاسٹ بائولرز کیوں کھیلائے، پاکستانی کوچ تیسرے فاسٹ بائولر کی شمولیت کے حوالے سے کہتے ہیں کہ انہیں اس لیے شامل کیا گیا کہ وہ لمبی بائولنگ کریں گے اور دیگر فاسٹ بائولرز کو آرام کا موقع ملے گا۔ 7 بیٹسمینوں کو اس مردہ پچ پر کھیلا کر آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ پاکستان ہر لحاظ سے انگلپنڈ سے پیچھے نظر آتا ہے حالانکہ انگلینڈ کی اس ٹیم میں کئی نمایاں کھلاڑی شامل نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے پہلا ٹیسٹ میچ جیتا ہے۔ پاکستان کے فاسٹ بائولرز کو فٹنس مسائل کا بھی سامنا ہے جبکہ پہلے میچ کی مردہ پچ پر ہونے والی تنقید اور شکست کے بعد بورڈ کے اعلیٰ افسران ملتان ایسے پہنچے جیسے پاکستان میں ٹیسٹ کرکٹ پہلی مرتبہ ہو رہی ہے اور گرائونڈ سٹاف پہلی مرتبہ ٹیسٹ میچ کے لیے پچ تیار کر رہا ہے۔ بات دراصل سوچ، صلاحیت اور قابلیت کی ہے۔ انگلینڈ نے پاکستان کی حکمتِ عملی ،سوچ ، صلاحیت ، قابلیت اور اہلیت کو بے نقاب کیا ہے۔ بدانتظامی کا عالم یہ ہے کہ وہ ملک جس کے پاس ہمیشہ بہترین فاسٹ بائولرز رہے آج اُس ملک کے کرکٹ بورڈ ، چیئرمین رمیز راجہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس فاسٹ بائولنگ میں آپشنز کم ہیں۔ یہ کھیل دیوانے کا ہے، یہ کھیل عقلمندوں کا ہے ، یہ کھیل بہادروں کا ہے ، یہ کھیل باصلاحیت لوگوں کا ہے۔ ہم ایسے لوگ کہاں سے لائیں۔
دوسرے ٹیسٹ میچ کا آغاز دلچسپ انداز میں ہوا ہے۔ لیگ سپنر ابرار احمد نے شاندار باؤلنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے سات انگلش بلے بازوں کو پویلین کی راہ دکھا کر پاکستان کے لیے ٹیسٹ میچ کی پہلی اننگز میں برتری لینے کے لیے اچھی بنیاد فراہم کی ہے۔ ابرار احمد کی گھومتی گیندوں کا مہمان ٹیم کے بلے بازوں کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ انگلینڈ نے روایتی جارحانہ انداز میں بیٹنگ کی لیکن کوئی بھی بلے باز کریز پر زیادہ وقت گذارنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ افتتاحی ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں سات بیٹسمینوں کو آؤٹ کر کے ابرار احمد نے سب کی توجہ حاصل کر لی ہے۔ اب تمام تر ذمہ داری بیٹنگ لائن پر ہے انگلینڈ پہلی اننگز میں زیادہ رنز نہیں کر پایا،میزبان ٹیم کے پاس بڑے رنز کر کے انگلینڈ کو دباؤ میں لانے کے اس بہترین موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اوپنرز ناکام رہے لیکن بابر اعظم کا آغاز اچھا تھا گوکہ انگلینڈ نے پہلی اننگز میں توقع سے کم رنز سکور کیے ہیں لیکن پھر بھی انہیں ہرانے کے لیے پاکستان کو پہلی اچھی بیٹنگ کرنا ہو گی اور اس کے بعد دوسری اننگز میں انگلینڈ کے بیٹسمینوں کو روکنا بھی ہو گا۔ بہرحال ابرار احمد کو شاندار آغاز پر مبارکباد۔