• news
  • image

مرگی کا بذریعہ آپریشن کامیاب طریقہ علاج

  توقیر بخاری

نیوروسرجن پروفیسر ڈاکٹر اظہر جاوید مرگی کا پیچیدہ علاج کرنے والے پاکستانی ڈاکٹر جنھوں نے اپنے ملک کو کسی دوسرے ملک پر ترجیح دی۔پاکستان میں کئی ڈاکٹروں کا شکوہ رہتا ہے یہاں صحت کی جدید سہولیات کی فراہمی میں تاخیر ی حربے  اس شعبے میں ماہرین کو دل برداشتہ کر دیتے ہیں۔ ایسے میں بعض ڈاکٹروں کو خود اس کا بیڑا اٹھانا پڑا ہے۔نیوروسرجن پروفیسر ڈاکٹر اظہر جاوید بھی انہی افراد میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے پاکستان کی دیگر امراض کے ساتھ ساتھ مرگی (ایپی لپسی) کے علاج کے بھی پیچیدہ آپریشن کئے ہیں۔ وہ گذشتہ کئی برسوں سے کامیابی کے ساتھ نیوروسرجری کے متعدد آپریشن کر رہے ہیں۔سب سے بڑھ کر وہ جدید ٹیکنالوجی پاکستان میں متعارف کروانے کی کامیاب کوششیں کر چکے ہیں جو دنیا بھر میں استعمال ہو رہی ہے۔وہ کئی برسوں سے ملتان اور  ملک کے مختلف حصوں میں عملی طور پر نجی و سرکاری شعبے میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ان دنوں وہ بختاور آمین میڈیکل کالج ملتان کے پرنسپل بھی ہیں۔انکا روزنامہ نوائے وقت کے ساتھ بات چیت کے دوران کہنا ہے کہ ’مرگی جیسے مرض کا  حساس آپریشن صرف ایک گھنٹے کا ہوتا ہے۔ عموماً تین گھنٹے کے بعد  مریض کو گھر بھیج دیا جاتا ہے۔اس میں گردن میں شہ رگ کے اوپر ایک ڈیوائس کو لگایا جاتا ہے جسے چھاتی کے اوپر ایک چھوٹی بیٹری کے ساتھ لگا کر منسلک کرلیا جاتا ہے اور اس کی پروگرامنگ کی جاتی ہے۔جب الیکٹرول متحرک ہوتا ہے تو وہ دماغ کو بھی متحرک کرتا ہے۔ اس طریقے سے مرگی کے مریضوں کے دورے کم ہوجاتے ہیں یا ختم ہوجاتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کے بعد ڈیوائس کو فوری آن نہیں کیا جاتا اور ایسا دو ہفتوں بعد کیا جاتا ہے۔ ’آپریشن میں کامیابی کے چانسز پچاس فیصد ہوتے ہیں مگر میرے کیے گئے کسی آپریشن میں آج تک کوئی بھی پیچیدگی پیدا نہیں ہوئی ہے۔
ان کے مطابق ان کوششوں سے پہلی مرتبہ مرگی کے آپریشن کی ٹیکنالوجی پاکستان منتقل کی گئی ہے۔یہ ایک بڑا قدم ہے۔ مرگی کے آپریشن میں بڑی رکاوٹ ٹیکنالوجی ہی ہے۔ اگر یہ پاکستان میں عام ہوجائے اور سستی دستیاب ہو تو اس سے کئی مریضوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مرگی کے  آپریشن کے بعد ملک میں اس مرض میں مبتلا دیگرمریضوں کے لیے ’امید کی کرن پیدا ہوتی ہے۔آپریشن کا حصہ بننے والے ایک بچے کے والد، جو خود ڈاکٹر ہیں، نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی خواہش پر بتایا ہے کہ مرگی اور پھر اس مرحلے میں جس میں ادویات سے بہتری نہیں آرہی تھی، اس میں صرف آپریشن ہی ممکن تھا۔’یہ سہولت پاکستان میں دستیاب نہیں تھی۔ باہر کسی بھی ملک جانا اور پھر اس کے اخراجات بہت زیادہ تھے۔ ایسی صورتحال میں اس کا آپریشن پاکستان میں ہوجانا ایک نئی زندگی دینے کے مترادف ہے۔ امید کرتے ہیں کہ دیگر مریض بھی اس طرح فائدہ اٹھا سکیں گے۔پروفیسر ڈاکٹر اظہر جاوید  اس شعبے میں دنیا کے جانے پہچانے نیورو اور سپائن سرجنز میں سے ایک ہیں اور ان کے کئی ریسرچ پیپرز بھی شائع ہوچکے ہیں۔وہ 
عرصہ دراز تک نشتر میڈیکل کالج و ہسپتال ملتان میں خدمات انجام دینے کے بعد وہ بختاور آمین میڈیکل کالج بطور پرنسپل چلے گئے جہاں پر انھوں نے نیورو سرجری  جاری رکھی ہوئی ہے۔ متعدد میڈیکل اداروں میں پڑھانے اور نئے سرجنز کو تربیت دینے کے علاوہ وہ وہاں پریکٹس کرتے آ رہے ہیں۔ وہ ملتان میں نشتر میڈیکل یونیورسٹی شعبہ نیوروسرجری  کے  سربراہ بھی رہ چکے ہیں اور
 مختلف قسم کے آپریشنز کرتے ہیں۔ان کے مطابق  ملک میں صحت کی سہولیات کو فروغ دینا اور ٹیکنالوجی کا منتقل کیا جاناضروری ہے۔ان کا مؤقف تھاکہ نیوروفزیشن کو ادویات سے علاج کرنا ہوتا ہے اور کئی ضروری ادویات دستیاب ہی نہیں ہوتیں اور جو دستیاب ہیں ان میں بھی مسائل موجود ہوتے ہیں۔ہم اپنے زیر تربیت سرجنز کو سکھاتے ہیں کہ کسی بھی مریض کا علاج کیسے کرنا ہے، جیسے ہم اپنے خونی رشتوں کی دیکھ بھال اور علاج معالجہ کرتے ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر اظہر جاوید کا کہنا ہے کہ مرگی کے علاوہ بھی کئی شعبوں جیسے سپائن سرجری، ریشہ اور دیگر آپریشن بھی  پاکستان میں کیے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی اندازے کے مطابق پاکستان میں مرگی کے بہت زیادہ مریض ہیں۔پاکستان کی نامور کمپیوٹر سائنسدان ارفعہ کریم بھی مرگی سے دنیا سے چلی گئی تھی۔ اس ٹیکنالوجی کے متعارف کروانے سے امید ہے کہ چھوٹے، بڑے سب فائدہ اٹھا سکیں گے۔
’پاکستان میں ہمارے ہاں سرجری کے اخراجات چالیس فیصد زیادہ ہے جس کیایک بڑی  وجہ باہر سے منگوائی جانے والی مشینری پر 35 سے 40 فیصد امپورٹ ڈیوٹی کا اطلاق  ہے۔اگر یہ امپورٹ ڈیوٹی کم ہوجائے تو اس شعبے کے ذریعے پاکستان میں بڑے پیمانے پر زرمبادلہ بھی لایا جاسکتا ہے۔ حکومت نے  مرگی والے پلانٹ پر رعایت دی تھی جس وجہ سے یہ ممکن ہوسکا ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن