حافظ لدھیانوی:جدید نعت گو شعراء کا قافلہ سالار
حافظ سراج الحق(حافظ لدھیانوی)کا شمار ملک کے ممتاز نعت گو شعراء میں ہوتا تھا۔ پاکستان میں حمد و نعت کہنے والے شعراء میں حضرت حافظ لدھیانوی کو بلند مرتبہ حاصل تھا وہ جدید نعت گو شعراء کے قافلہ سالار سمجھے جاتے تھے۔ حافظ لدھیانوی کی رحلت سے شعروادب کی دنیا میں ایسا خلا پیدا ہوگیاہے جو کبھی پُر نہیں ہوسکے گا۔
حافظ لدھیانوی سے میری پہلی ملاقات 1955-56ء میں اس وقت ہوئی جب میں ڈی سی ہائی سکول ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ساتویں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا اور حافظ صاحب جو فیصل آباد میں ڈسٹرکٹ سیونگز آفیسر کی حیثیت سے سرکاری ملازمت کررہے تھے ہمارے سکول میں قومی بچتوں کی اہمیت و افادیت پر لیکچر دینے آئے تھے، مجھے یاد ہے کہ ان کا لیکچر ختم ہونے کے بعد میں انہیں سکول سے باہر تک چھوڑنے گیا اور میں نے ان سے اپنا تعارف بھی کرایا کہ میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کئی اخبارات کا نامہ نگار ہوں، حافظ صاحب ان دنوں کلین شیو تھے اور قمیض پتلون پہنتے تھے۔ حافظ صاحب سے یہ تعلق اس وقت اور گہرا ہوگیا جب 1958ء میں میٹرک کرنے کے بعد میں فیصل آباد منتقل ہوگیا اور مجھے پروفیسر سید کرامت حسین جعفری پرنسپل گورنمنٹ کالج فیصل آباد، پروفیسر مرزا محمد منور اور پروفیسر افتخار احمد چشتی کی نشستوں میں بیٹھنے کا موقع ملا اور مجلس اقبال کے اجلاسوں میں شریک ہوا جس کے حافظ لدھیانوی بھی رکن تھے۔ حافظ صاحب ڈسٹرکٹ سیونگز آفیسر سے ترقی کرکے ڈویژنل سیونگز افسر سرگودھا ڈویژن مقرر ہوگئے۔ وہ پاکستان کے طول و عرض میں ہونے والے مشاعروں میں شرکت کرتے اور اپنے سفر کے دوران قرآن پاک ان کے ورد زبان رہتا، وہ سالہا سال تک باقاعدگی سے رمضان کے مہینے میں تراویح پڑھاتے رہے، ان کی سرکاری ملازمت عبادات میں ان کے ذوق و شوق پر اثر انداز نہ ہوئی اور اپنے دینی میلان اور رجحان کے باعث حافظ صاحب نے غزل گوئی ترک کرکے حمد و نعت کو ہی اپنی شاعری کا مرکز و محور بنالیا اور اس میدان میں ان کی دلچسپی کا عالم یہ رہا کہ حمد و نعت کے 26 مجموعے حافظ لدھیانوی نے ہمارے لئے چھوڑے ہیں شاید پاک و ہند میں کسی دوسرے شاعرکو یہ اعزاز حاصل نہیں ہے۔
حافظ لدھیانوی ان سطور کے راقم پر ہمیشہ مہربان رہے، اپنے مجموعہ ھائے کلام عام طور پر مجھے ارسال فرماتے رہے، ’’جرأت‘‘ کے مطالعہ سے ان کو رغبت رہی اور اگر کسی وجہ سے اس کی ترسیل میں تعطل واقع ہوتا تو خط لکھ کر دوبارہ جاری کراتے جب بھی لاہور تشریف لاتے کہیں نہ کہیں سے فون پر ضرور رابطہ کرتے اور پیار و محبت اور ہمت و حوصلہ کے کلمات سے نوازتے، کئی بار ’’تجارت و جرأت‘‘ کے دفتر میں بھی تشریف لائے۔
حافظ صاحب سے آخری ملاقات راولپنڈی میں پشاور روڈ پر ڈائیوو بس کمپنی کے ٹرمینل پر ہوئی جہاں وہ قائد اعظم یونیورسٹی میں اپنے ایک دوست پروفیسر کے ساتھ گاڑی کا انتظار کررہے تھے۔ پہلے سے کہیں زیادہ پُر نُور چہرہ، نُورانی داڑھی اور سفید قمیض شلوار نے ان کو نُور کے ہالے میں ڈھال دیا تھا۔ ہاتھ میں پکڑی چھڑی ان کے بڑھاپے اور نقاہت کی گواہی دے رہی تھی لیکن یہ تصور ہرگز نہ تھا کہ حافظ صاحب سے یہ آخری ملاقات ہو رہی ہے۔ میں نے اس ملاقات کے دوران حضرت مجدد الف ثانیؒ کی حیات مبارکہ پر مرتب کردہ کتاب ’’شیخ سرہند‘‘ کا تذکرہ کیا اور انہیں بتایا کہ میں اپنی یہ کتاب انہیں بھیج چکا ہوں اور جب وہ راولپنڈی سے فیصل آباد واپس جائیں گے تو کتاب ان کی منتظر ہوگی۔
حافظ صاحب نے ’’شیخ سرہند‘‘ کے مطالعہ کے بعد اپنے تاثرات سے ایک مکتوب گرامی کی صورت میں نوازا، اُن کا یہ خط میرے لئے ایک نادر تحفہ کی صورت اختیار کرگیا، میں اپنے قارئین کو بھی اس مکتوب کے مطالعہ میں شریک کرنا چاہتا ہوں، لیجئے ملاحظہ فرمائیے سرہند اورشیخ سرہند کے بارے میں حضرت حافظ لدھیانوی کے تاثرات۔
’’ محترم جمیل اطہر صاحب،
السلام علیکم
آپ کا نایاب تحفہ بعنوان ’’شیخ سرہند‘‘ ملا، آپ کی تحریر نے فصاحت اور پرانی تاریخ کے نادر اور انمول نمونے پیش کئے ہیں۔ مجدد الف ثانی نوراللہ مرقدہ کی ان تھک کوششیں، استقامت اور ان کی خدمات بلا شبہ لاثانی ہیں، ایک ایک صفحہ ماضی کے دور کی یادگار ہے۔ آپ نے کتاب تحریر کرکے بخشش کا سامان مہیا کرلیا ہے۔
مجھے بھی سرہند شریف کے عُرس میں شرکت کا فخر حاصل ہے۔ یہ بہت پرانی بات ہے۔ 500 قرآن مجید کے نسخے ہر نماز کے بعد پڑھے جاتے تھے۔ اس کا ایصال ثواب مجدد صاحب کو ہوتا ہوگا۔
بڑے بڑے نامور قراء ہندوستان بھر سے شرکت کے لئے آتے تھے، ناظم اشارے سے قرأت کی دعوت دیتا تھا۔ قرآن مجید کی تلاوت رُوحوں کو ایمان کی لذت اور دلوں کو نورِ الٰہی سے منور کرتی تھی، میرے ہم سفر مولانا خان محمد خانقاہ سراجیہ کندیاں کے مہتمم بھی تھے، یہ چند دن زندگی کے حسین لمحے، زندگی کے چند لمحے روح کی تازگی کا سبب بنتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (جاری)