وزیراعظم پاکستان ،حسین شہید سہروردی
معزز قارئین !۔ 5 دسمبر کو، تحریک پاکستان کے نامور قائد اور 1956ء سے 1957ء تک پاکستان کے وزیراعظم سیّد حسین شہید سہروردی ؒ کی برسی منائی گئی۔ پاکستان اور کئی دوسرے ملکوں میں اہلِ پاکستان ، کے علاوہ فرزندان و دُخترانِ پاکستان نے ، اپنے اپنے انداز میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر سیّد حسین شہید سہروردی صاحبؒ کی قومی خدمات کا اعتراف کرتے ہُوئے اُنہیں خراجِ عقیدت پیش کِیا۔
معزز قارئین ! 1987ء سے 2019ء تک ’’ تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ‘‘ کی طرف سے ،پاکستان بنگلہ دیش اور بھارت کے تقریباً 1800اکابرین و کارکنان کو طلائی تمغوںسے نوازا گیا۔ 1989ء میں ’’ تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ‘‘ کی طرف سے سیّد حسین شہید سہرورد ی صاحبؒ کو پیش کیے جانیوالے گولڈ میڈل پر بیرسٹر محترمہ شاہدہ جمیل کی طرف سے سیّد حسین شہید سہروردی صاحبؒ کی قومی خدمات کے بارے جو، لکھا گیا تھا ، اُس کا نئی نسل کو علم ہونا بے حد ضروری ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں
’’ آپ کا شمار اس خطہ کے اِن مسلمان رہنمائوں میں ہوتا ہے جنہوں نے مسلم تشخص کو اُجاگر کرنے ، مسلمانوں کے سیاسی و اقتصادی حقوق کے تحفظ، برطانوی سامراج سے آزادی اور مسلمانوں کیلئے ایک الگ مملکت کے حصول کیلئے بے پناہ خدمات انجام دیں ۔ حسین شہید سہروردیؒ مدنا پور مغربی بنگال میں پیدا ہُوئے۔ ابتدائی تعلیم کلکتہ ، مدرسہ اور سینٹ زیوئر کالج سے حاصل کی ۔ اسکے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے انگلستان چلے گئے ، جہاں آپ ؒ نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون و فلسفہ اور سیاسیات و اقتصادیات کی اعلیٰ ڈگری حاصل کی۔ انگلستان سے واپسی پر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کِیا اور کونسلر منتخب ہُوئے ۔ کلکتہ کارپوریشن کے اِس وقت کے سمرٹ سی آر داس سوراج پارٹی کے سربراہ تھے ۔
آپ 1930ء میں کلکتہ میں مولانا شوکت علی کی زیر صدارت منعقد ہونیوالی خلافت کانفرنس کی مجلس استقبالیہ کے چیئرمین تھے ۔ آپؒ نے اپنے سپاسنامہ میں مسلمانوں کے حقوق کی آواز اُٹھائی اور سائمن کمیشن کی سفارشات کو مسترد کرنے کا اعلان کِیا۔ آپؒ نے بنگال مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھی۔ اُنہیں اپنے خواب کو اِس وقت شرمندۂ تعبیر کرنے کا موقع ملا جب 1936ء میں قائداعظمؒ نے مسلم لیگ کو از سر نو منظم کرنے کا بیڑا اُٹھایا۔
معزز قارئین ! مجھے 1957ء سے 1961ء تک گورنمنٹ کالج سرگودھا میں ، (گریجوایشن تک ) تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا ۔ 1957ء سے 1959ء تک دو قومی نظریہ کے علمبردار سرسیّد احمد خان کے پوتے ڈاکٹر عابد احمد علی صاحب اور پھر 1961ء تک سرخ پوش لیڈر خان عبداُلغفار خان کے صاحبزادے خان عبداُلعلی خان پرنسپل رہے۔ دونوں پرنسپل صاحبان طلباء کو تلقین کِیا کرتے کہ ’’ جب قومی سطح کا کوئی لیڈر، سرگودھا میں جلسہ عام سے خطاب کرے تو آپ لوگ سب سے پیچھے کھڑے ہوں یا بیٹھ جائیں ، شور شرابا اور ہلہ گلہ ہر گز نہ کریں !‘‘۔ خان عبداُلغفار خان اور اُنکی ’’ نیشنل عوامی پارٹی ‘‘ کے کچھ دوسرے قائدین ، سرگودھا کے دورے پر گئے تو، اُنہیں کالی جھنڈیاں دکھانے والوں میں کالج کے کچھ سینئر طلباء بھی تھے ۔ ڈاکٹر عابد احمد علی صاحب نے ہنگامی طور پر طلبا کو ہال میں اکٹھا کِیا اور صرف اِتنا کہا کہ ’’ جو طلبا ریلوے سٹیشن پر کالی جھنڈیاں لیکر گئے تھے مَیں اُن سے ناراص ہوں ، وہ آج شام خان صاحب کے جلسے میں نہ جائیں تو ، اچھا ہے ۔
معزز قارئین ! ۔ 17اکتوبر 1957ء کو ، کمپنی باغ سرگودھا میں (اْس وقت کے) وزیرِ اعظم۔(اور عوامی لیگ کے سربراہ)۔ جناب حسین شہید سْہروردی کو جلسہء عام سے خطاب کرنا تھا۔ ڈاکٹر عابد علی احمد صاحب نے، طلبہ سے جلسے میں شرکت اوروزیرِ اعظم کی تقریر خاموشی سے سْننے کی تلقین کی۔ سْہروردی صاحب، کینال ریسٹ ہائوس میں ٹھہرے ہْوئے تھے۔ مَیں اور میرے دو دوست تاج الدین حقیقت(روزنامہ امروز کے اسسٹنٹ ایڈیٹر) مرحوم اور میاں جمیل اختر( سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ) مرحوم ۔ سائیکلوں پر سوار، کینال ریسٹ ہائوس پہنچ گئے۔ ہم تینوں نے ،کالج یونیفارم پہن رکھی تھی۔وہاں سرکاری درباری اور سیکورٹی کے لوگ بہت کم تھے۔ سپرنٹنڈنٹ پولیس نے پوچھا۔’’کِیہ گل اے منڈیو!‘‘۔ہم تینوں نے یک زبان کہا۔’’اسِیں وزیرِ اعظم نوں مِلنا چاہنے آں!۔‘‘ ایس۔پی صاحب مسکرائے اور بولے۔ ’’تھوڑی دیر لئی صبر کرو‘‘۔
تھوڑی دیر بعد ،سہروردی صاحب بر آمد ہْوئے۔ اْن کے ساتھ ، عوامی لیگ سرگودھا کے صدر ملک گل باز خان ایڈووکیٹ(جو بعد میں جج بھی رہے) اور سیکریٹری جنرل،صحافی ملک عمردراز خان (مرحوم)۔ اور ڈپٹی کمشنر سرگودھا بھی تھے۔ ہم نے سہروردی صاحب کو،سلام کِیا، اْنہوں نے کمالِ شفقت سے ،ہم تینوں سے ہاتھ مِلایا اور کہا۔"Boys"۔ آئو جلسے میں چلتے ہیں‘‘۔ سہروردی صاحب کی کار میں، اْن کے ساتھ، ڈپٹی کمشنر نے بیٹھنے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا۔ "No"۔ تم اپنی گاڑی میں بیٹھو! ہمارے ساتھ، ہماری گاڑی میں ،ہماری پارٹی کے لوکل لیڈرز بیٹھیں گے‘‘۔ پھر ملک گْلباز خان اور ملک عْمر دراز خان ،اپنے۔مرکزی لیڈر۔ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئے۔
سرگودھا کے اْسی جلسہء عام میں صدر سکندر مرزاکی طرف سے ،وزیرِ اعظم سہروردی کو اْن کی برطرفی کا، ٹیلیگرام بھی مِلا تھا، جو اْنہوں نے، جلسے کے شْرکاء کو پڑھ کر سْنایا تھا۔ یہ متحدہ ہندوستان کے مختلف اضلاع، شہروں اور قصبوں میں، آل انڈیا مسلم لیگ کے۔ ’’لوکل لیڈرز‘‘۔ ہی تھے کہ، جنہوں نے قائدِ اعظمؒ کی قیادت میں، قیامِ پاکستان کیلئے جدوجہد کی۔ صدر ایوب خان کے خلاف جب، عوامی تحریک شروع ہوئی، تو کالجوں اور یونیورسٹیوں کے ہزاروں / لاکھوںطلبہ و طالبات نے، مختلف سیاسی جماعتوں کا ساتھ دے کر اْن کے۔ ’’لوکل لیڈرز‘‘۔ کا کردار ادا کِیا۔ سب سے زیادہ لوکل لیڈرز، عوامی لیگ کے سربراہ، شیخ مجیب الرحمن اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین ،ذوالفقار علی بھٹو کے حِصّے میں آئے۔
معززقارئین !۔ یہ وہی سکندر مرزا ہیں جنہیں ہم نے 7 اکتوبر 1958ء کو ، پاکستان میں مارشل لاء نافذ کرتے دیکھا اور پھر فیلڈ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے صدر محمد ایوب خان نے اپنا کام شروع کردِیا۔ مَیں نے کئی سہروردی صاحبان کو دیکھا اور سرسیّد احمد خان کے پوتے ڈاکٹر عابد احمد علی جیسے اکابرین کو، پاکستان کی خدمت کرتے دیکھا، اب بھی کر رہے ہیں ۔ علاّمہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے پاکستان میں بہت کچھ ہُوا اور نہ جانے آئندہ کیا کیا ہوگا؟۔ دیکھتے ہیں ۔